دھکم دھکا

337

اگر یہ کہا جائے کہ کورونا وائرس کا پھیلائو اور ہلاکت خیزی اپنے بندوں سے اللہ کے پیار کا ایک انداز ہے تو خدارا ہمیں گالیاں مت دینا بس ہماری بات پر سوچنا۔ گئے زمانوں میں جب اناج کی پیداوار آدمی کی پیداوار سے بڑھ جاتی تھی تو قدرت کسی نہ کسی وبا کے ذریعے حساب برابر کرتی تھی۔ مگر اب یہ ذمے داری فرعون صفت سائنس دانوں اور حکمرانوں نے لی رکھی ہے۔ مگر خدا کو یہ منظور نہیں کہ اس کے بندے بم دھماکوں یا ایٹم بم کے ذریعے افسوس ناک موت سے دوچار ہوں آپ کورونا وائرس کو خدا کا چیلنج بھی کہہ سکتے ہیں اگر دنیا کے تمام ممالک ایٹمی اسلحہ برباد کرکے خدا کے حضور سر نگوں ہوجائیں تو کورونا وائرس اڑن چھو ہوجائے گا۔
کشمیر، افغانستان، فلسطین، اور دیگر ممالک میں ظلم و ستم کی جو روایت پڑ چکی ہے اس کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ ہم وزیر اعظم عمران خان کی اس بات کو سو فی صد تسلیم کرتے ہیں کہ حکمران چور ہوں تو کرپشن کو نہیں روکا جاسکتا حکمران جب بددیانت اور بے ایمان ہوں تو ملک تباہ ہوجاتا ہے اور آج ہم تحریک انصاف کی حکومت میں تباہی کی دہانے پر کھڑے ہیں اور ہمارے لبوں پر مسکراہٹ کی جگہ ماسک لگا ہوا ہے۔ عمران خان کے چہیتے وفاقی وزیرے ریلوے شیخ رشید بارہا شادی نہ کرنے کی وجہ بتا چکے ہیں کہ جب مارکیٹ میں خالص دودھ مل جائے تو بھینس پالنے کی کیا ضرورت ہے۔ شیخ رشید نے شادی سے کنی کترانے کی وجہ بتا کر پوری قوم کو گالی دی ہے۔ شاید مگر ازخود نوٹس لینے والی عدلیہ بھی مارکیٹ کے خالص دودھ سے لطف اندوز ہوتی رہی سو خاموش رہی۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو گالی کا جواب گولی سے دیتے ہیں۔ مگر انہوں نے بھی اپنی بندوق میں پھلترو پھیر کر منہ پھیر لیا۔
کورونا وائرس کی موت سے بچنا تو اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ مگر بھوک سے بچانا حکمرانوں کے اختیار میں ہے سو حکومت نے اس اسمارٹ لاک ڈائون کی اجازت دے کر غریبوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کر لیا ہے۔ مگر قوم کچھ زیادہ ہی اسمارٹ ثابت ہوئی۔ کورونا سے احتیاط پر عمل درآمد کو جس طرح نظر انداز کیا جارہا ہے اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ قوم کو کورونا کی نظر سے بچانا مشکل ہوجائے گا۔ شاید نہیں بالکل مشکل ہوجائے گا۔ دھکم پیل ہماری قوم کی فطرت ہے آپ کہیں بھی چلے جائیں ہر شخص دھکم پیل کرتا دکھائی دیتا ہے۔ حتیٰ کہ مسجد میں دیر سے آنے والے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پہلی صف پر کھڑا ہوجائے۔ کورونا وائرس سے اب تک لاکھوں انسان موت کا لقمہ بن چکے ہیں۔ مگر ماہرین طب اور طبی سائنسدان کورونا وائرس کے سامنے بے بس ہیں۔ ان کی بے بسی اپنی جگہ مگر انسانوں کی خود سری اپنی جگہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کا ایک ہی علاج ہے کہ سماجی فاصلہ رکھا جائے دن میں کسی بھی صابن سے ہاتھ دھوئے جائیں اور گھر سے نہ نکلا جائے تو کورونا وائرس پہ قابو پایا جاسکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ انسانو ں پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے، گویا کورونا وائرس اتنا خطرناک نہیں جتنا آدمی خود خطر ناک ہے۔ حکومت کو سختی کرنے کے بجائے کوئی ایسا طریقہ کار وضح کرنا چاہے جو اسمارٹ لاک ڈائون میں آدمیوں کو اسمارٹ ہونے سے روکے۔ حکومت سیاستدانوں پر سیاست کرنے سے پابندی نہیں لگائی جاسکتی مگر ازخود نوٹس لینے کی ماہر عدلیہ سیاستدانوں کے منہ پر پٹی باندھ سکتی ہے۔ تاکہ وہ کورونا وائرس پر سیاست نہ کریں۔