رمضان کے آخری ایام

579

ہم اِس وقت رمضان المبارک کے تیسرے اور آخری عشرے سے گزر رہے ہیں جسے اللہ کے رسولؐ نے دوزخ سے نجات کا عشرہ قرار دیا ہے، جب کہ اس سے پہلے جو دو عشرے گزرے ان میں سے پہلا رحمت اور دوسرا مغفرت سے منسوب تھا۔ جس نے اِن دو عشروں میں ایمان و احتساب کے ساتھ روزے رکھے اور اپنے وقت کو قیمتی بنانے کے لیے عبادت و ریاضت اور استغفار کو معمول بنایا، قیام دلیل میں انہماک اختیار کیا اور حسب توفیق انفاق فی سبیل اللہ پر توجہ دی تو بلاشبہ اس نے رحمت اور مغفرت میں سے اپنا حصہ وصول کرلیا اور اب تیسرے عشرے کے اختتام پر دوزخ سے نجات کا پروان بھی اس کے ہاتھ میں تھمادیا جائے گا۔ اب یہ اُس پر منحصر ہے کہ وہ اس پروانے کو سینے سے لگا کر رکھتا اور اپنے اعمال کے ذریعے اس کی حفاظت کرتا ہے یا اپنی بداعمانی سے اسے ضائع کردیتا ہے۔ اقبال نے سچ کہا ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی!
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
رمضان المبارک کے دوران ہم نے اپنے ایمان کو مستحکم کرنے کے لیے جو مجاہدہ کیا، اس کی کامیابی اور اس کے نتیجہ خیز ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم آنے والے دنوں میں بھی اس کا تسلسل برقرار رکھیں اور اپنے اندر کسی غفلت اور کوتاہی کو در نہ آنے دیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ رمضان ختم ہوتے ہی ہم میں سے اکثر اپنے پرانے معمولات پر واپس آجاتے ہیں اور ایک ماہ کی مجاہدانہ تربیت کے دوران ہم نے تقویٰ کی جو زندگی اپنائی تھی اس سے اگر تمام تر نہیں تو بڑی حد تک یا کسی حد تک دست کشی ہوجاتے ہیں، ہمیں رمضان المبارک کے دوران شب بیداری کی جو دولت میسر آئی تھی اسے بھی ضائع کر بیٹھتے ہیں کون جانے اسے اگلا رمضان میسر آئے گا یا نہیں۔ پچھلے رمضان میں ہمارے کتنے ہی پیارے عزیز و اقارب اور دوست و احباب ہمارے درمیان موجود تھے لیکن موجودہ رمضان میں ان کی صرف یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں اور ان کا ہنستا کھیلتا وجود خواب و خیال ہوگیا ہے۔ آج نہیں تو کل ہمیں بھی اسی منزل سے گزرنا ہے پھر بے توجہی کیسی اور غفلت و کوتاہی کیوں؟
رمضان میں ایک ایسی مبارک رات بھی ہے جسے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا گیا ہے، چناں چہ روایات میں آتا ہے کہ نبی پاکؐ نے اس رات کو تلاش کرنے کے لیے رمضان کے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا۔ جب گوہر مقصود ہاتھ نہ آیا تو دوسرے عشرے کا اعتکاف کیا لیکن دوسرے عشرے میں بھی کامیابی نہ ہوئی پھر ہاتفِ غیب نے اطلاع دی کہ لیلتہ القدر رمضان کے تیسرے عشرے میں تلاش کرو۔ چناں چہ ہر سال آخری عشرے کا اعتکاف آپؐ کی زندگی کا معمول بن گیا۔ اس سنت پر پوری امت عمل پیرا ہے۔ رمضان کا تیسرا عشرہ شروع ہوتا ہے تو مسجدیں معتکفین سے آباد ہوجاتی ہیں۔ حرمین شریفین کی رونق بڑھ جاتی ہے اور پورے ماحول پر للہیت طاری ہوجاتی ہے۔ عشرے کی طاق راتیں خاص توجہ کا مرکز بنتی ہیں کیوں کہ احادیث میں یہ اشارہ موجود ہے کہ لیلتہ القدر ان طاق راتوں میں مل سکتی ہے، ممکن ہے کہ اس مبارک رات کو پورے اخلاص اور لگن کے ساتھ تلاش کرنے والے اسے پانے کا ادراک نہ کرسکیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ قدرت ان کے دامن کو لیلتہ القدر کے فیوض و برکات سے بھردے گی اور وہ محروم نہیں رہیں گے۔
پاکستان میں بھی اعتکاف کی روایت بہت تابندہ ہے۔ رمضان کا تیسرا عشرہ شروع ہوتے ہی مسجدیں معتکفین سے بھرجاتی ہیں، گزشتہ کئی سال سے نوجوانوں میں اعتکاف کرنے کا رجحان بڑھا ہے ورنہ پہلے صرف معمر افراد ہی مسجد میں بیٹھے نظر آتے تھے، اب کورونا نے بوڑھوں کو مسجد میں جانے سے روک دیا ہے، کورونا نے کیا روکا ہے کورونا کے نام پر بوڑھوں کے لیے مسجدوں کے دروازے بند کردیے گئے ہیں، حالاں کہ مسجدوں کی رونق ہی بوڑھوں سے ہے وہ اپنی ریٹائرڈ لائف بیش تر مسجد ہی میں گزارتے ہیں، اب کی دفعہ ان پر پابندی نے مسجدوں کو تو ویران کیا ہی ہے خود بوڑھوں کی زندگی بھی ویران ہو کر رہ گئی ہے۔ انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ گھر میں اعتکاف کرلیں جہاں تک گھر میں اعتکاف کا تعلق ہے تو وہ گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے گھر میں معتکف ہیں لیکن یہ جبری اعتکاف ہے جس کا اس مسنون اعتکاف سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کا اہتمام نبی پاکؐ نے مسجد میں فرمایا۔ مردوں کے لیے گھروں میں اعتکاف کرنے کی کوئی روایت موجود نہیں ہے، البتہ عورتیں گھروں میں کرنے کا ایک کونا مخصوص کرکے اس میں معتکف ہوسکتی ہیں۔ پنجاب میں معمر افراد کو مسجد میں جانے سے روکنے کے لیے مسجد کے باہر پولیس کے ساتھ ساتھ ٹائیگر فورس بھی لگائی جارہی ہے، گویا سارا خطرہ مسجدوں سے ہے اور حکومت خواہ سندھ کی ہو پنجاب اس کا زور مسجدیں اور مذہبی اجتماعات بند کرنے پر ہے۔ بازاروں میں عید کی شاپنگ کی وجہ سے رش بڑھتا جارہا ہے لیکن اس کا کوئی علاج حکومت کے پاس نہیں ہے۔
اس کے پاس آخری حربہ یہی ہے کہ بازار بند کردیے جائیں لیکن عید کے موقع پر کیا یہ ممکن ہے؟ ڈیڑھ دو ماہ کی بندش کے نتیجے میں دکانداروں کو پہلے ہی بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے، ان کا کاروبار بڑی حد تک تباہ ہوگیا ہے اور اب وہ مزید تباہی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ستم یہ کہ حکومت نے دکانداروں کے لیے کسی ریلیف پیکیج کا بھی اعلان نہیں کیا ہے۔