سپریم کورٹ کا شاپنگ مالز اور مارکیٹس پورا ہفتہ کھولے رکھنے کا حکم

306

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بند رکھے گئے شاپنگ مالز کو کھولنے کا حکم دیا ہے۔

پیر کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالتی بینچ نے کورونا وائرس کی صورتحال پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے حکومت کا وہ حکم نامہ کالعدم قرار دیا جس میں کہا گیا تھا کہ کاروبار ہفتہ اور اتوار کو بند رکھا جائے۔عدالت نے قرار دیا کہ دو دن کاروبار بند رکھنے کا حکم آئین کے آرٹیکل 4, 18 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔

عدالت نے حکم دیا کہ پنجاب میں شاپنگ مالز فوری طور پر آج ہی سے کھلیں گے جبکہ سندھ میں حکومت شاپنگ مالز کھولنے کے لیے وزارت صحت سے منظوری لے گی۔

سپریم کورٹ نے حکم نامے میں لکھوایا کہ عدالت توقع کرتی ہے کہ وزارت صحت کوئی غیر ضروری رکاوٹ پیدا نہیں کرے گی اور کاروبار کھول دے گی۔

عدالتی حکم میں ہدایت کی گئی ہے کہ تما شاپنگ مالز اور مارکیٹوں میں حفاظتی تدابیر اور ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پنجاب اور اسلام آباد کی انتظامیہ شاپنگ مالز کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے، سندھ میں شاپنگ مالز بند رکھنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ صوبائی حکومت شاپنگ مالز کھولنے کے لیے وفاقی حکومت سے رجوع کرے۔ اجازت ملنے کے بعد صوبے مالز کھولنے میں رکاوٹ پیدا نہ کریں۔

چیف جسٹس نے عدالتی حکم میں کہا کہ کورونا نے پاکستان کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنے وسائل صرف کیے جا رہے ہیں۔

عدالتی آرڈر میں لکھوایا گیا کہ ’سیکرٹری صحت کے مطابق اسلام آباد میں سالانہ ایک ہزار لوگ پولن سے مر جاتے ہیں۔ دیگر بیماریوں سے بھی ہزاروں لوگ مر رہے ہیں۔ امید ہے حکومت صرف کورونا پر سارے وسائل نہیں جھونکے گی۔‘

سماعت کے آغاز پر کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ کچھ مارکیٹس کو ایس او پیز پرعمل نہ کرنے پر سیل کیا ہے، اس پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور کمشنر کراچی کو ہدایت دی کہ چھوٹے دکانداروں کو کام کرنے سے نہ روکیں، آپ دکانیں بند کریں گے تو دکاندار تو کورونا کے بجائے بھوک سے مرجائے گا، سیل کی گئی مارکیٹس کو بھی کھولیں اور انہیں ڈرانے کے بجائے سمجھائیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کراچی میں پانچ بڑے مالز کے علاوہ کیا سب مارکیٹیں کھلی ہیں؟ اگر باقی مارکیٹس کھلی ہیں تو شاپنگ مال کیوں بند رکھے گئے ہیں؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ منطق بتائی جائے۔ کیا وبا نے حکومتوں سے وعدہ کر رکھا ہے وہ ہفتے اور اتوار کو نہیں آئے گی۔ کیا حکومتیں ہفتہ اتوار کو تھک جاتی ہیں۔ کیا ہفتہ اتوار کو سورج مغرب سے نکلتا ہے۔ ہم تحریری حکم دیں گے کہ ہفتے اور اتوارکو تمام چھوٹی مارکیٹیں کھلی رکھی جائیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ’عید پر رش بڑھ جاتا ہے۔ ہفتے اور اتوار کو بھی مارکیٹیں بند نہ کرائی جائیں۔ آپ نئے کپڑے نہیں پہننا چاہتے لیکن دوسرے لینا چاہتے ہیں۔ بہت سے گھرانے صرف عید پر ہی نئے کپڑے پہنتے ہیں۔‘

دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جن چھوٹی مارکیٹوں کو کھولا گیا وہ کون سی ہیں؟ باقی مارکیٹیں کھلی ہوں گی تو شاپنگ مالز بند کرنے کا کیا جواز ہے؟ چھوٹے تاجر کورونا کے بجائے بھوک سے ہی نہ مر جائیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کرونا کے حوالے سے اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں، یہ کہاں جا رہے ہیں؟ نینشل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے نمائندے نے بتایا کہ ’ہمارے لیے 25 ارب مختص ہوئے ہیں۔ یہ تمام رقم ابھی خرچ نہیں ہوئی۔‘

چیف جسٹس نے پوچھا کہ 25 ارب تو آپ کو ملے ہیں، صوبوں کو الگ ملے ہیں۔ احساس پروگرام کی رقم الگ ہے۔ 500 ارب روپے کورونا کے مریضوں پر خرچ ہوں تو ہر مریض کروڑ پتی ہوجائے گا۔ اتنی رقم لگانے کے بعد بھی اگر 600 لوگ مر گئے تو ہماری کوششوں کا کیا فائدہ ہے؟’ کیا 25 ارب کی رقم سے آپ کثیر منزلہ عمارتیں بنا رہے ہیں؟‘

چیف جسٹس نے پوچھا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز پر کتنا پیسہ خرچ ہوا؟ این ڈی ایم اے کے نمائندے نے بتایا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ پر 59 ملین خرچ ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قرنطینہ مراکز پر اتنا پیسہ کیسے لگ گیا؟ کیا قرنطینہ مراکز کے لیے نئی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں؟ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کرونا کے ایک مریض پر اوسط کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں؟ ایک مریض پر لاکھوں روپے خرچ ہونے کا کیا جواز ہے؟

این ڈی ایم اے کے نمائندے نے بتایا کہ میڈیکل آلات، کٹس اور قرنطینہ مراکز پر پیسے خرچ ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کورونا اس لیے نہیں آیا کہ کوئی پاکستان کا پیسہ اٹھا کر لے جائے۔ اربوں روپے ٹین کی چارہائیوں پر خرچ ہو رہے۔

جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کورونا پر پیسہ سوچ سمجھ کر خرچ کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کرونا کا علاج صرف کمرے میں بند کرنا ہے۔

کیا کمرے میں بند ہونے پر 25 لاکھ خرچ ہوتے ہیں؟ ابھی ڈینگی آئے تو پچاس ہزار مر جائیں گے۔ سرکاری ہسپتال میں کورونا مثبت نجی میں منفی نکلتا ہے۔ جسے دل کرتا ہے کورونا کا مریض قرار دے دیا جاتا ہے۔ پیسہ وہاں خرچ ہو رہا جہاں لگا نظر بھی نہیں آ رہا۔

ہمیں کورونا کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کا بھی اعتراف ہے۔لیکن محکمہ صحت میں کالی بھیڑیں بھی موجود ہیں۔ اسپتال میں کام کرنے والے لوگوں کے ادویات بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ کمیشن طے ہوتے ہیں۔ان تمام معاملات کو بھی دیکھنا ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ محکمہ صحت تمام کالی بھیڑوں کو جانتا ہے۔سب سے تھرڈ کلاس ادویات سرکاری اسپتالوں میں ہوتی ہیں۔او پی ڈی میں سو مریض کھڑے ہوتے اور ڈاکٹر چائے پی رہے ہوتے ہیں۔ کیا کیمرے لگا کر سرکاری اسپتالوں کی نگرانی نہیں ہو سکتی؟

سیکرٹری صحت نے یقین دہانی کرائی کہ جہاں جہاں ممکن ہوگا کیمرے نصب کریں گے۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ کراچی پورٹ پر اربوں روپے کا سامان پڑا ہے جو باہر نہیں آ رہا۔لگتا ہے کراچی پورٹ پر پڑا سامان سمندر میں پھینکنا پڑے گا۔

پاکستان میں غربت بہت ہے لوگ روزانہ کما کر ہی کھانا کھا سکتے ہیں۔بند ہونے والی صنعتیں دوبارہ چل نہیں سکیں گی اور سارا الزام این ڈی ایم اے پر آئے گا۔ کیا کسی کو معلوم ہے دو ماہ بعد کتنی بے روزگاری ہوگی؟ کیا کروڑوں لوگوں کو روکنے کے لیے گولیاں ماری جائیں گی؟