تبلیغی جماعت پر ریاستی استبدار

514

جاوید اکبر انصاری
آج بھارت، بنگلا دیش اور پاکستان میں تبلیغی جماعت ریاستی استبداد کا شکار ہے۔ بھارت میں اس کو غیر قانونی قرار دینے کی تجاویز کی سنگھ پریوار وکالت کررہی ہے۔ پاکستان اور بنگلا دیش میں اس کی سرگرمیوں کی کڑی ریاستی ناکہ بندی کی جارہی ہے۔ پاکستان میں تحریک انصاف کی خواتین نے اس کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ اس مہم کو کیسے پسپا کیا جاسکتا ہے؟ سامراجی دہریے تبلیغی جماعت پر دو الزام لگاتے ہیں، ایک یہ کہ وہ اجتماعی عبادات کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور دوسرے یہ کہ وہ کورونا کی وبا کے پھیلاؤ کا باعث فحاشی اور خواتین کی بے راہ روی کو ٹھیراتی ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ کورونا وبا کا پھیلا عذاب الٰہی کا مظہر ہے ہم پر ویسے ہی عذاب نازل ہوا ہے جیسے عاد وثمود اور قوم لوط پر ان کی گمراہیوں کی سبب نازل ہوتا رہا ہے۔ ہم مدت سے کہتے ہیں آئے ہیں کہ پاکستانی ریاستی نظام کو دہریہ خطوط پر مرتب کرکے یہاں کہ سامراج پٹھو حکمرانوں نے قوم کو عذاب الٰہی کا مستحق بنادیا ہے۔ یہاں شرع نافذ نہیں۔ پاکستان کا پہلا وزیر قانون ایک کٹرہندو تھا۔ یہاں سود اور سٹے کا کاروبار پہلے روز سے جاری ہے۔ فحاشی اور عریانی کا سیلاب آیا ہوا ہے جس کی ہر دہریہ حکومت اور پارٹی پشت پناہی کررہی ہے۔ سامراج کی بھیک پر انحصار کیا جارہا ہے۔ علوم اسلامی کی بنیاد پر حکومتی پالیسی تدوین کا کوئی امکان نہیں۔ ایسے میں عذاب الٰہی آنا ناگزیر ہے۔ جب تک سامراج نواز دہریہ منحوس حکومتیں برسراقتدار آتی رہیں گی ہم اپنے آپ کو عذاب الٰہی کا مستحق ثابت کرتے رہیں گے کیونکہ یہ حکومت سود اور سٹے کا کاروبار جاری رکھیں گی، عیاشی اور فحاشی کو فروغ دیتی رہیں گی، شریعت کی تنفیذ کو ناممکن بناتی رہیں گی سامراج کی کاسہ لیسی پر اصرار کرتی رہیں گی۔
آج ان دہریہ حکومتوں نے essential services پر پابندیاں اٹھالیں ہیں۔ کیا نماز باجماعت لازمی سروسز نہیں، کیا محافل ذکر اور اجتماعی توبہ لازمی سروسز نہیں، کیا تبلیغ لازمی سروسز نہیں، نماز، ذکر، تبلیغ حکمرانوں کے لیے essential services اس لیے نہیں کیونکہ وہ سامراج کو services دیتے ہیں اللہ رب العزت کے مطیع نہیں۔
ہم یہ بات خوب جانتے ہیں کہ اجتماعی توبہ تو درکنار یہ حکمران برصغیر کو جہنم بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے۔ کورونا کے پھیلاؤ سے فائدہ اٹھا کر وہ ان ممالک میں اسلامی اجتماعیت اور مذہبیت کو مجروح کرنے کی مذموم جدوجہد کررہے ہیں۔ آج ان دہریہ حکمرانوں نے تبلیغی جماعت پر ہاتھ ڈالا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تبلیغی جماعت پورے برصغیر میں اسلامی مذہبیت اور معاشرت کو فروغ دینے اور منظم کرنے والی ایک اہم قوت ہے۔ یہ راسخ العقیدہ اسلامیوں کی ایک اہم ترین عوامی تحریک ہے جس کے بلاشبہ ایک کروڑ سے زیادہ متاثرین برصغیر میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی شب روز کی محنت سے دینی شعار کا تحفظ اور دینی عصبیت کو فروغ پہنچا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اب عظیم اسلامی تحریک سامراج کے ہدف پر کیوں نہ ہوگی۔
یہ کھٹکتی ہے دل کافر میں کانٹے کی طرح
تبلیغی جماعت کو سامراجی دست برد سے محفوظ رکھنا تمام اسلامی جماعتوں کا فرض ہے۔ اس نازک موقع پر تمام اسلامی قوتوں کو تبلیغی جماعت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوجانا چاہیے اور اس بات کا ببانگ دہل اعلان کرنا چاہیے کہ کورونا کے پھیلاؤ کے ضمن میں تبلیغی جماعت کا موقف اسلامی تعلیمات کے عین مطابق اور بالکل درست ہے۔ یقینا وبا کا پھیلاؤ عذاب الٰہی کا مظہر اور برصغیر میں معاصی کے سیلاب کا نتیجہ ہے۔ یقینا نماز باجماعت، محافل ذکر اور تبلیغ وہ essential services ہیں جن کو انجام دیے بغیر اجتماعی توبہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
آج سامراج نواز حکمران تبلیغی جماعت کی ادارتی ناکہ بندی کی تیاری کررہے ہیں اور تبلیغی تنظیم اور عمل پر monitoring and surveillance کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ monitoring and surveillance کی یہ منصوبہ بندی طویل المدت نوعیت کی ہے اور سامراج کو امید ہے کہ اس نظام کا تنفیذی عمل ہنگامی حالات تک محدود نہ رہے بلکہ دائمی ہو۔ تبلیغی عمل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دہریہ ریاستی انتظامی جکڑ بندیوں میں محدود کرلینا چاہیے۔
اس نوعیت کی سرمایہ دارانہ ریاستی جبر کی تنفیذ کا رویہ administrative law اور statutes ہوتے ہیں جن کی تخلیق نوکر شاہی کرتی ہے (مقننہ نہیں) اور یہ عموماً ماورائے دستور ہوتے ہیں اور یہ سرمایہ دارانہ human right کی مشروط معطلی پر منتج ہوتے ہیں۔
اس نوعیت کی استبداد سے نبرد آزما ہونے کے لیے گہرے سیاسی شعور اور سرمایہ دارانہ ریاستی عمل کی نوعیت سے واقفیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج برصغیر کے اسلامی گروہوں کی سیاسی قوت بھی محدود ہے اور ان کا سیاسی شعور بھی محدود ہے۔ ہم برصغیر میں جاری ریاستی ساختی کارفرمائی کے عمل سے کماحقہ واقف نہیں لہٰذا اس عمل کے تضادات سے فائدہ اٹھانے سے عموماً قاصر رہتے ہیں۔ ہر صورت جو کچھ سیاسی قوت اور فہم ہمیں میسر ہے اس کو اس موقع پر تبلیغی جماعت پر ریاستی استبداد ختم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
ہماری حالیہ سیاسی پسماندگی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہماری عوامی جماعتیں، تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی سیاسی عمل کو شجر ممنوع سمجھتی ہیں اور ان کی نظر میں تحفظ دین کی جدوجہد کا غلبہ دین کی جدوجہد سے فی زمانہ کوئی تعلق نہیں اور اپنی اس غلط فہمی کی ہمیشہ ایک بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ کم از کم تبلیغی جماعت کے لیے اس غلط فہمی کو دور کرلینا ضروری ہے۔
تبلیغی زعماء کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ دہریہ ریاست انتظامی قانون اور آئین کے ذریعہ ان کے خلاف ایک طویل المدت جنگ کی منصوبہ بندی کرنی ہے جس کا مقصد تبلیغی تنظیم اور عمل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دہریہ ریاستی گرفت میں لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردینا ہے، تبلیغی زعماء سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ اسلامی سیاسی جماعتوں کے بارے میں اپنے شبہات کو رفع کریں۔
سمجھتے ہو کیوں پہرہ داروں کو رہزن
تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی، جمعیت علما اسلام، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک یا رسول اللہ کو اپنا فطری حلیف اور معاون سمجھیں اور 2023-24 کے انتخابات سے قبل ایک ایسا ملک گیر اسلامی اتحاد قائم کیا جائے جو تمام مخلصین دین کے دل کی آواز ہو اور جس کی تابناک انتخابی کامیابی کی بنیاد پر ہم سامراجی دہریہ ریاستی استبدادکو پارہ پارہ کرنے کی جدوجہد برپا کردیں۔