بی ایل اے اور امریکا کا فیصلہ ایک معما

450

امریکی محکمہ خارجہ نے بلوچستان میں سرگرم زیر زمین مسلح گروہ بلوچستان لبریشن آرمی کو دہشت گردقر ار دیا ہے۔ امریکی سینٹرل کمانڈ سینٹ کام کے اردو آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ پر جاری کردہ وڈیو پیغام میں امریکی ترجمان نے کہا ہے کہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اہم اقدامات کیے جارہے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ بی ایل اے نے کراچی میں چینی قونصلیٹ اورگوادر کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل سمیت پاکستان کے سیکورٹی اداروں اور شہریوں پر حملوں کی ذمے داری قبول کی۔ امریکا جنوبی ایشیا میں سلامتی اور استحکام کا حامی ہے۔ ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد بی ایل اے کو مستقبل میں دہشت گردانہ کارروائیوں سے روکنا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بلوچستان میں سرگرم تنظیم کو ایک ایسے وقت میں دہشت گرد قرار دیا جب خطے کی سیاست اور تزویراتی صورت حال قطعی غیر یقینی کا شکار ہے او ’’کچھ‘‘ ہوجانے کا خوف چہروں اور حرکات وسکنات سے عیاں ہے۔ مدتوں سے جاری گریٹ گیم کے کسی فیصلہ کن تصادم میں بدلنے کی افواہیں زوروں پر ہیں۔ بھارت اور امریکا مل کر چین کو سبق سکھانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ حیلوں بہانوں سے چین کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ پہلے چین پر تجارتی پابندیوں اور ٹیکسز کے ذریعے ایک کشمکش اور مسابقت کی فضا پیدا کی اب کورونا آنے کے بعد کشیدگی بڑھانے کا ایک نیا بہانہ امریکیوں کے ہاتھ آگیا ہے وہ کورونا کا الزام چین کے سر تھوپ کر چین کے عالمی اقتصادی مقاطع کا نیا کھیل شروع کرنے کی تگ ودو میں ہیں۔ چند دن قبل ٹرمپ کی پریس کانفرنس میں چین کے لیے ان کی نفرت اور بیزاری صرف چہرے کے تاثرات ہی سے نہیں لفظوں سے بھی عیاں تھی انہوں نے لگی پٹی رکھے بغیرکہا وہ چین سے ناراض ہیں۔ اس سے پہلے وہ کورونا کا الزام چین پر عائد کرتے ہوئے اسے پرل ہاربر اور نائن الیون سے بڑا حملہ قرار دے چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے کورونا کو بنیاد بنا کر امریکا چین کی اقتصادی طاقت پر کاری ضرب لگانا چاہتا ہے۔
چین دنیا کی واحد طاقت ہے جو امریکا کے ہم پلہ نہیں تو اس کے قریب ترین ہے اور یہ دوری بھی چین تھوڑی سی محنت کے بعد ختم کر سکتا ہے۔ بھارت مسلسل گلگت بلتستان اور آزادکشمیر پر حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور ایسی کسی بھی مہم جوئی کو ضرور امریکا کی حمایت ہوگی کیونکہ اس مہم جوئی سے چین کے گرد کسا جانے والا پھندہ مکمل ہوجاتا ہے۔ یہ وہ مقصد تھا جس کے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا پاکستان پر دبائو ڈالے ہوئے رہا۔ امریکا پاکستان کو چین سے کاٹ کر بھارت کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کرتا رہا اور اسی مقصد کے لیے پاکستان اور بھارت میں ٹریک ٹو مذاکرات اور کئی پیس پروسیس شروع کرائے گئے مگر یہ سب بے نتیجہ رہا کیونکہ بھارت کشمیر کے مسئلے کے کسی بامعنی حل پر آمادہ نہیں تھا۔ وہ کشمیر کو اپنی مٹھی میں بھی رکھنا چاہتا تھا اور پاکستان سے بہتر تعلقات بھی چاہتا تھا۔ اس کے لیے پاکستان کے کئی حکمرانوں اور سیاست دانوں کو شیشے میں اُتارا جاتا رہا۔ پاکستان میں بہت سے سیاسی حادثات اور لڑائیوں کا پس منظر یہی رہا ہے۔
ایک طرف بھارت گلگت بلتستان پر حملہ کرکے سی پیک کو جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکنا چاہتا ہے تو دوسری طرف اس مرحلے پر امریکا نے بلوچستان میں ایک ایسی تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا جس کا خمیر ہی سی پیک کی مخالفت سے اُٹھا ہے اور جسے بھارت کی حمایت حاصل ہونا کوئی راز نہیں۔ اب تو بھارت کے لوگ کھلے بندوں کہہ رہے ہیں کہ وہ بلوچستان کے فلاں فلاں افراد سے رابطوں میں ہیں۔ خود اکبر بگٹی نے کوہلو کے پہاڑوں پر جانے سے پہلے اور اپنی وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ بلوچستان میں عسکریت کا سارا عذاب گوادر بندرگاہ کی وجہ سے نازل ہوا ہے۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ اینٹی سی پیک پروجیکٹ میں بھارت اکیلا نہیں بلکہ امریکا کا چھوٹا شراکت دار ہے۔ یہ ایک مشترکہ عالمی پروجیکٹ ہے جسے کئی علاقائی ملکوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ایسے میں امریکا کی طرف سے بی ایل اے کو دہشت گرد قرار دینے کی بات قابل ہضم نہیں۔ بی ایل اے کا سرپرست بھارت ہے تو کیا امریکا بھارت کو دہشت گردی کی حمایت میں کچھ پابندیوں کا شکار بنا سکتا ہے؟ موجودہ حالات میں اس پر ’’ایں خیال است ومحال است وجنون است‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس کا تعلق افغانستان میں امریکا کی مجبوریوں سے ہو سکتا ہے۔ امریکا کو افغانستان سے جس باعزت انخلا کی ضرورت ہے پاکستان کا کردار اس میں اہم ہے۔ پاکستان کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ امریکا بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا نوٹس لے اور بھارت کے خلاف وہی رویہ اپنائے جو دہشت گردی برآمد کرنے والے ملکوں کے ساتھ اپنایا جاتا ہے۔ امریکا نے پاکستان کے ان مطالبات کے جواب میں کچھ افراد کو افغانستان سے یورپ منتقل کرادیا اور ان کی نقل وحمل میں کچھ رکاوٹیں کھڑی کیں مگر افغانستان کی سرزمین بلوچستان میں مسلح کارروائیوں کے لیے بیس کیمپ کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ امریکا اور بھارت کو یہ اندازہ ہے کہ طالبان کے پھیلائو اور افغان ریاست پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد یہ اس سرزمین اس شدت اور بے رحمی کے ساتھ پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو سکے گی۔ اس لیے امریکا طالبان کی کسی فیصلہ کن پیش قدمی سے پہلے طالبان اور بھارت کے درمیان براہ راست روابط کا آغاز چاہتا ہے ایسا نہ ہونے کی صورت میں وہ اپنے پاکستان مخالف پروجیکٹس سے ہاتھ کھینچنا چاہتا ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی سمیت کوئی مسلح گروہ از خود کچھ نہیں یہ ایک بڑے کھیل کے مہرے ہیں اور ان کے پیچھے ہاتھ اب نادیدہ بھی نہیں کیونکہ بھارت میں کئی لوگ برسرعام اس تحریک کو اوونر شپ دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بھارتی فوج کے ایک افسر کی وڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں اس نے اپنا موبائل فون لہراتے ہوئے کہا کہ اسے کس بلوچ لیڈر کا نمبر چاہیے اس موبائل میں موجود ہے کیونکہ میرا ان سے رابطہ ہے۔ اس طرح کی باتوں سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اب انہیں بلوچستان کے معاملے میں پردے کے پیچھے چھپنے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ وہ کھل کر اپنے خاکے میں رنگ بھر نے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ تاہم چند دن قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلوچستا ن کے دورے کے دوران کہا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے۔ اسی دوران امریکی فوج کے کمانڈر انچیف نے سینیٹ میں کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کے امن میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور جنرل باجوہ کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے ہیں۔ امریکا کے ان اشاروں کے باجود یہ معما سمجھنے کا ہے نہ سمجھنے کا کیونکہ ابھی امریکا کی ترجیحات اور ضرورتیں تبدیل نہیں ہوئیں۔ امریکا کے ’’اخلاص‘‘ کا امتحان یہ ہوگا کہ بی ایل اے کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف کیا اقدمات اُٹھاتے ہیں اور یہ کون ہے؟ اب معاملہ ڈھکا چھپا نہیں رہا۔