ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہر روز ان سے منسوب ایک نیا لطیفہ سامنے آنے لگا۔ جنرل ضیا الحق کی خوبی یہ تھی کہ وہ اخبارات کا مطالعہ پابندی سے کرتے تھے اور ملکی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ انہیں اس صورت حال کا علم ہوا تو ایک فوجی کی ذمے داری لگائی کہ پتا کرو یہ لطیفے کون گھڑ رہا ہے۔ دوچار دن ہی میں پتا لگا کر اس شخص کو پیش کردیا گیا۔ جنرل صاحب نے اسے گھورتے ہوئے کہا ’’تو یہ تم ہو جو میرے اوپر لطیفے بنا رہا ہے۔ تمہیں پتا نہیں میں اس ملک کا پاپولر لیڈر ہوں‘‘۔ اس شخص نے جواب دیا ’’لطیفے تو میں ہی بنارہا ہوں لیکن قسم لے لیجیے یہ لطیفہ میرا بنایا ہوا نہیں جو ابھی ابھی آپ نے سنایا ہے‘‘۔ عمران خان پاکستان کے پاپولر لیڈر ہیں لیکن یہ شہرت جس تیز رفتاری سے آئی تھی اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے رخصت ہورہی ہے۔ ان کے معاملے میں مزے کی بات یہ ہے کہ کسی کو لطیفے بنانے کی ضرورت نہیں وہ خود ہی لطیفہ ساز ہیں۔ ابتدائی دنوں میں انہوں نے چین میں روشنی کی رفتار سے چلنے والی ٹرین ایجاد کردی۔ جاپان اور جرمنی کو ایک لکیر پر لاکر وہاں مشترکہ انڈسٹری کھڑی کردی۔ ایک جلسے میں انہوں نے انکشاف کیا کہ قائداعظم نے پاکستان بنانے میں چالیس سال لگائے تھے حالانکہ وہ کینسر سے مررہے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ 92اور 95 کے بیچ سات سال میں حکومت نے چھ ہزار ارب روپے قرض لیا۔ عمائدین حکومت کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ بڑی وقعت کا حامل ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ان کے الفاظ ہی نہیں حرکات وسکنات پر بھی گہری نظر رکھی جاتی ہے اور نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔ بات کے پس منظر ہی نہیں پیش منظر پر بھی نظر رکھی جاتی ہے۔ بات میں پوشیدہ معانی تلاش کیے جاتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق نے جب پہلی مرتبہ کہا کہ ہمارا ایٹم بم بنانے کا کوئی ارادہ نہیں تو واشنگٹن میں ان کی بات کو درست تسلیم کر لیا گیا، لیکن یہی بات انہوں نے دوبارہ کہی تو واشنگٹن میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ ضیا الحق جھوٹ بول رہے ہیں۔ تیسری مرتبہ جب ضیا الحق نے کہا کہ ہمارا ایٹم بم بنانے کا کوئی ارادہ نہیں تو واشنگٹن کو یقین ہوگیا کہ پاکستان ایٹم بم بنا چکا ہے۔
ایک صاحب کی کار کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ باڈی کو تو کم ہی نقصان پہنچا ونڈ اسکرین چورا چور ہوگئی۔ کار کو آہستہ آہستہ چلاتے ہوئے وہ ورکشاپ کی طرف جانے لگے۔ ٹوٹی ہوئی اسکرین سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا آرہی تھی۔ ایک راہ گیر نے دیکھا تو بولا ’’اوہو! مفت اے سی دے مزے‘‘۔ ہمارے یہاں حکومت کو بھی مفت کے مزے ہی سمجھا جاتا ہے۔ نہ تیاری کی جاتی ہے، نہ افراد سازی اور نہ کوئی ایسی ٹیم تشکیل دی جاتی ہے جو ماہرین پر مشتمل ہو، ملکی مسائل کا ادراک رکھتی ہو اور انہیں حل بھی کرسکے۔ عمران خان فخر سے کہتے ہیں کہ انہوں نے اقتدار کے حصول کے لیے بائیس برس جدو جہد کی ہے لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ ان کے پاس بائیس افراد بھی نہیں ہیں جو ڈھنگ سے ملک چلا سکیں۔ وزارت خزانہ سے لے کر اسٹیٹ بینک تک انہیں معیشت چلانے کے لیے آئی ایم ایف سے افراد بلانے پڑے۔ دیگر محکموں کی صورت حال یہ ہے کہ ہر بڑے ادارے کا سربراہ کوئی فوجی ہے۔ اینٹی نارکوٹکس فورس کا ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عارف ملک، سپارکو کے ڈائریکٹر میجر جنرل قیصر انیس، پی آئی اے کے چیئرمین ائر مارشل ارشد محمود، نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انور علی، نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل کے رکن جنرل باجوہ، اکنامک ایڈوائزری کمیٹی کے رکن جنرل با جوہ، نیب لاہور کے ڈائریکٹر جنرل (ر)میجر شہزاد سلیم، واپڈا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین، وزارت داخلہ بریگیڈیر اعجاز شاہ۔ ایک طویل فہرست ہے۔ چند پر اکتفا کیجیے۔ اور ہاں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات جنرل(ر) عاصم باجوہ۔ یہ تمام افراد کسی فوجی انقلاب کے ذریعے ان عہدوں تک نہیں پہنچے بلکہ سول حکومت نے انہیں تعینات کیا ہے۔
کسی زمیندار کو ایک چراغ ملا۔ چراغ کو رگڑا تو اس میں سے جن برآمد ہوگیا۔ زمیندار جن کو گھر لے آیا۔ جن کا کہنا تھا کہ وہ فارغ نہیں بیٹھ سکتا۔ اسے ہر وقت کوئی نہ کوئی کام بتایا جائے۔ زمیندار نے اسے اپنی تمام زمینوں میں ہل چلانے کا حکم دیا۔ وہ منٹوں میں چلا کے آ گیا۔ زمیندار نے اسے ایک حویلی بنانے کا کہا وہ بھی تیار ہو گئی۔ زمیندار پریشان۔ اسے کچھ کام نہ سوجھا تو بولا’’ جائو تہہ خانے میں آلوئوں کی بوریاں پڑی ہیں، ان میں سے اچھے آلو ایک طرف، درمیانے دوسری طرف اور بڑے تیسری طرف ڈھیر کر دو‘‘۔ جن چلا گیا اور دو روز تک واپس نہیں آیا۔ زمیندار نے تہہ خانے میں جا کے دیکھا تو جن سر پکڑے بیٹھا تھا۔ اس سے فیصلہ ہی نہیں ہو رہا تھا کہ کون سا آلو کس ڈھیر میں رکھے۔ فیصلہ کرنا ایسا ہی مشکل کام ہے۔ ناکام اور کامیاب لیڈر ہی نہیں عام انسان بھی اپنے فیصلوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ کامیاب لیڈر واضح ذہن کے ساتھ بر وقت فیصلہ کرتا ہے جب کہ ناکام لیڈر تذبذب اور فکری انتشار میں گھرا رہتا ہے۔
جو ہچکچا کے رہ گیا وہ رہ گیا اِدھر
جس نے لگائی ایڑ وہ خندق کے پار تھا
فیصلہ سازی کی قوت سے مالا مال شخص تفصیل سے روشنی ڈال سکتا ہے کہ وہ کیا بنیادی عوامل اور اہم تفصیلات تھیں جو اس کے فیصلے کا باعث بنیں جب کہ ناکام شخص کاندھے اچکا کر بڑی لا پروائی سے کہہ دے گا ’’میرے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا‘‘۔ ایسے لوگوں کی فیصلہ سازی میں ٹال مٹول کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ فیصلہ سازی میں آزاد اور خود مختار نہیں ہیں۔ اس وجہ سے ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت بکھر جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسائل گمبھیر سے گمبھیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
کرکٹ میں عمران خان کی شہرت مضبوط قوت ارادی کے حامل ایک ایسے کپتان کی تھی جو برے سے برے حالات میں بھی مجتمع اعصاب کے ساتھ بہترین فیصلے کرسکتا تھا۔ بروقت فیصلہ کرنے کے لیے کچھ بنیادی معیار طے کرنے پڑتے ہیں۔ کرکٹ میں عمران خان کے پاس ایسے بنیادی معیار تھے۔ وہ ہار جیت سے بے نیاز ہو کر بال ٹمپرنگ اور میچ فکسنگ سے کوسوں دور فائٹنگ اسپرٹ کے ساتھ کھیلتے تھے۔ اس کے دو فائدے تھے نتیجہ مثبت نکلتا تھا۔ دوسرے قوت ارادی مضبوط ہوتی تھی۔ سیاست میں عمران خان کے پاس نہ بنیادی معیار ہیں اور نہ معیاروں پر کھڑا رہنے کی قوت۔ وہ حکومت میں آئے ہی بال ٹمپرنگ اور میچ فکسنگ کے ذریعے، لہٰذا ان میں نہ تو مضبوط قوت ارادی ہے اور نہ اصول اور نظریات۔ وہ جہاں پھنستے ہیں اصول اور نظریات چھوڑ کر یوٹرن لے لیتے ہیں۔ ستم یہ کہ اسے وہ ایک لیڈر کی خوبی سمجھتے ہیں۔ جہاں تک قوت ارادی کا تعلق ہے۔ مضبوط قوت ارادی بہادری پیدا کرتی ہے اور یہی وہ پوائنٹ ہے جہاں ہمارے سول حکمران پھنس جاتے ہیں۔ حقیقی حکمرانوں کو، سلیکٹرز کو بہادری پسند نہیں۔ کوئی سیاسی لیڈر ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوجائے، اپنے فیصلے پر اصرار کرے اسے بھٹو کی طرح لٹکادیا جاتا ہے یا پھر نواز شریف کی طرح گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ لیکن ایسے چند ہی معاملات ہیں۔ بیش تر معاملات میں حکومت فیصلہ سازی میں آزاد ہوتی ہے۔ عمران خان کے وزیر مشیر اور دیگر احباب کروڑوں اور اربوں کی کرپشن میں ماخوذ ہیں۔ کس نے روکا ہے کہ وہ ان کے خلاف کاروائی نہ کریں۔ کورونا کے معاملے کو انہوں نے جس بری طرح ہینڈل کیا ہے اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتیں۔ فوج نے دبائو ڈال کر انہیں لاک ڈائون پر مجبور کیا تھا ورنہ وہ پہلے دن سے لاک ڈائون کے حق میں نہیں تھے۔ غریب مرتے ہیں تو مریں معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔ اب جب کہ پاکستان میں کورونا سے متاثرین کی تعداد چالیس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ مرنے والوں کی تعداد بھی ایک ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ وہ لاک ڈائون ختم کررہے ہیں۔
خشک پتے آنکھ میں چبھتے ہیں کانٹوں کی طرح
دشت میں پھرنا الگ ہے باغبانی اور ہے