زرعی شعبہ بھی تباہی کے دہانے پر

367

ٹڈی دل پاکستان پر حملہ آور ہے اور خدشہ ہے کہ پاکستان کی زرعی پیداوار کو اس سے شدید نقصان پہنچے گا ۔ کورونا کے نام پر کیے جانے والے لاک ڈاؤن کی بناء پر صنعتی شعبہ پہلے ہی بند ہے جس کی وجہ سے ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں زبردست کمی کے اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں ۔ لے دے کر زرعی شعبہ بچا تھا تو اب وہ ٹڈی دل کی نذر ہوگیا ہے ۔ اقوام متحدہ نے بھی اس سلسلے میں خبردار کیا ہے ۔ تاہم یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اقوام متحدہ نے اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے کمنٹری کا شعبہ کیوں سنبھال لیا ہے ۔ کبھی اقوام متحدہ کی کمنٹری سنائی دیتی ہے کہ اگر بروقت توجہ نہ دی گئی تو روہنگیا مہاجرین کا مسئلہ انسانی المیے میں تبدیل ہوسکتا ہے تو کبھی کمنٹری سنائی دیتی ہے کہ اسرائیلی توسیع پسندی خطے میں امن کے لیے شدید خطرہ ہے ۔ اگر اقوام متحدہ اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کررہی ہوتی تو آج دنیا اتنے مسائل کا شکار نہ ہوتی ۔ ٹڈی دل کے معاملے میں بھی اقوام متحدہ نے یہی کیا ہے ۔ جس طرح سائبیریا سے ہجرت کرنے والے پرندوں کا ایک راستہ ہے ، بالکل اسی طرح ٹڈی دل کا بھی اپنا ایک راستہ ہے ۔ یہ ٹڈیاں مشرقی افریقا میں پیدا ہوتی ہیں اور مصر ، سعودی عرب، مسقط سے ہوتی ہوئی پاکستان کے علاقے بلوچستان میں پہنچتی ہیں پھر یہ سندھ اور پنجاب سے ہوتی ہوئی بھارت میں داخل ہوتی ہیں ۔ دہائیوں سے اقوام متحدہ ان ٹڈیوں کی افزائش کو مانیٹر کرتا رہا ہے اور ان کے خطرناک صورت اختیار کرنے سے قبل ہی انہیں تلف بھی کرتا رہا ہے مگر گزشتہ برس سے اقوام متحدہ نے اپنا کام موثر طریقے سے نہیں کیا ہے جس کی بناء پر اب ٹڈیوں کی یہ فوج انسانو ں کے لیے خطرے کی صورت اختیار کرچکی ہے ۔ یہ حکومت پاکستان کی بھی ذمہ داریوںمیں شامل ہے کہ وہ ٹڈیوں کے خلاف اپنی سرزمین پر کارروائی کرتی مگر یہاں تو حکومت کورونا کے نام پر لوٹنے میں مصروف ہے ۔ کسان مریں یا جیئیں ، نہ تو صوبائی حکومت کو اس کی فکر ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت کو ، بس الزام تراشی کا کھیل جاری ہے ۔ وفاقی حکومت کے زیرا نتظام پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے جس کے دیگر وظائف کے علاوہ ٹڈیوں کو ٹریک کرکے ان کاخاتمہ کرنا بھی اہم ہے ۔ اس کے لیے پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے پاس ہوائی جہازوںکا بیڑا بھی موجود ہے اور تجربہ کار اسٹاف بھی ۔ اسے المیہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ان جہازوں میں سے صرف ایک جہاز قابل استعمال حالت میں ہے جبکہ بقیہ جہاز ضروری مرمت نہ ہونے کی بناء پر ناکارہ ہوچکے ہیں ۔ کیا پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے ذمہ داروںکو اس کا علم ہے کہ انہوں نے پاکستان کی معیشت کے ساتھ کیا کیا ہے ۔ فصلیں تباہ ہونے کا خمیازہ صرف کسان ہی نہیں بھگتیں گے بلکہ اس کے مضر اثرات پورے ملک پر پڑیں گے ۔ بہتر ہوگا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں اب کورونا کے بخار سے باہر نکلیں اور ملک کی حالت کی طرف توجہ دیں ۔ کورونا کے نام پر ہر چیز کو پس پشت ڈال دیا گیا ۔ ایک طرح سے کورونا حکومت کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا ہے جس کی آڑ میں حکمرانوںکی ہر نااہلی نہ صرف چھپ گئی ہے بلکہ ان کے وارے نیارے الگ سے ہوگئے ہیں ۔ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی حکومت مسئلے کے حل کے بجائے لکیر پیٹنے میں دلچسپی رکھتی ہے ۔ فصلوں کی تباہی کا واحد مطلب یہی ہے کہ آئندہ برس درآمدات میںاضافہ اور درآمدات میں اضافے کا مطلب ہے مزید قرضے ۔ اور یوں ملک غربت کی دلدل میں مزید دھنس جائے ۔ملک کے زرعی شعبے کا حال پہلے ہی دگرگوںہے ۔ مہنگی کھاد، مہنگی اور ملاوٹ شدہ جراثیم کش ادویات اورمہنگی زرعی مشینری نے پہلے ہی کسانوں کے ہوش اڑائے ہوئے ہیں کہ اب ہائبرڈ بیجوں کی وجہ سے ان کے لیے مزید مسائل پیدا کردیے گئے ہیں ۔ اس تمام صورتحال کے باوجود جب فصل تیار ہوتی ہے توچینی اور گندم مافیا ان کی فصلوں کو اونے پونے خرید کر سرکار سے زرتلافی بھی لیتی ہے اور ذخیرہ کرکے کئی گنا قیمت بھی وصول کرتی ہے ۔ کیا سرکا رکو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ زراعت ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور کیا ارباب اقتدار کو یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں روز کئی ہزار پاکستانی خط غربت کو عبور کرجاتے ہیں ۔ آئی ایم ایف کی ٹیم نے پہلے ہی ملک کا حال بُرا کیا ہوا ہے ، رہی سہی کسر ٹڈی دل کا بروقت مقابلہ نہ کرنے جیسی پالیسیوں نے پوری کردی ہے ۔