اورچاند ڈوب گیا

396

قاسم جمال
اقامت دین کا کام جو خالصتاً اللہ کی رضا اور اس کی بندگی کے لیے کیا جاتا ہے۔ سید ابوالاعلی مودودی ؒ کی تحریک نے لاکھوں نہیںکروڑوں لوگوں کو اس تحریک سے وابستہ کیا اور اس تحریک نے ان کی زندگیوں کو تبدیل کردیا۔ سید مودودی ؒ کے انقلابی لٹریچر اور تحریک نے ان لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو بھی تبدیل کر کے انقلابی سوچ کو پروان چڑھایا۔ اس تحریک سے وابستہ ہونے والے لوگ بغیر کسی لالچ اور غرض کے اس تحریک سے اپنا رشتہ جوڑتے ہیں اور وقت، جان، پیسہ اللہ کے دین کے فروغ کے کام میں لگا تے ہیں اور یہ کام نہ رکنے والا کام ہے۔ نہ صلہ کی تمنا نہ ستائش کی آرزو کے مصداق یہ کارواں اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ جن لوگوں نے اس کام کو سمجھا اور وہ ڈٹ گئے اور آخری سانسوں تک رب کی رضا کے لیے انبیا ؑکے کام میں لگ گئے۔ ان ہی افراد میں ایک فرد چاند شکیل کا ہے۔ چاند شکیل ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آج کل وہ لانڈھی 36Bحلقہ زمان آباد کے ناظم حلقہ تھے۔ کورنگی کے ایریا میں ان کی گھڑیوں کی مرمت کی ایک چھوٹی سی دوکان بسم اللہ واچ کے نام سے تھی۔ یہ دوکان نہیں بلکہ تبلیغ دین اور عوام کی خدمت کا ایک مرکز تھا۔ جماعت اسلامی سے وابستہ افراد ودیگر احباب جب قریب سے گزرتے تو وہ چاند شکیل سے ملے بغیر نہیں جاتے۔ چاند شکیل انتہائی ملنسار اور محبت کرنے فرد تھے ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ لوگوں کو اپنی جانب راغب کرتا تھا۔ ان کا اوڑھنا بچھونا جماعت اسلامی ہی تھا۔ انہوں نے اپنے دل ودماغ کے ساتھ جماعت اسلامی کو اپنے گھر میں بھی داخل کیا اور ان کے بیوی بچے بھائی سب اس تحریک سے وابستہ ہوئے۔ چاند شکیل مرجع خلائق کی مانند اپنے علاقے میں دین کے کام سے وابستہ تھے۔ ان کی دوکان بیٹوں نے سنبھال لی تھی تو وہ بڑے خوش تھے کہنے لگے کہ اب بھرپور طریقے سے جماعت اسلامی کا کام کر سکوں گا۔
چاند شکیل کا اپنے علاقے اور جماعت کے حلقہ میں بڑی عزت واحترام تھا۔ وہ چھوٹوں بڑوں سب کے ساتھ انتہائی پیار محبت اور خلوص کے ساتھ پیش آتے۔ جماعت اسلامی سے انہیں عشق تھا وہ جماعت اسلامی کے خلاف کوئی غلط بات بھی برداشت نہیں کرتے کسی بھی قسم کی کوئی خرابی یا غلط بات کی انہیں اطلاع ملتی تو سخت رنجیدہ بھی ہوتے اور پیار محبت کے ساتھ اس کی اصلاح پر زور دیتے تھے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصے سے لاک ڈائون کی وجہ سے ان کی دوکان بند تھی گھر میں معاشی پریشانی اور مشکلات بھی تھی لیکن سلام ہے چاند شکیل پر کہ وہ اپنی پریشانی اور مشکلات کا ذکر کرنے کے بجائے وہ غریب اور پریشان لوگوں کی کفالت اور انہیں راشن اور کھانے کی فراہمی کے لیے دن رات مصروف عمل تھے اور کسی قریبی ساتھی سے بھی اپنی پریشانی کا ذکر تک نہیںکیا۔ انتقال سے ایک دن قبل لاک ڈائون کھلنے کی وجہ سے ان کی دوکان بھی کھلی اور اس دن ان کی سیل بھی بہت ہوئی گاہک بھی بہت آئے تھے۔ چاند شکیل بہت خوش تھے اور اپنے قریبی دوستوں سے اس کا انہوں نے مسرت کے ساتھ اظہار بھی کیا تھا۔ وہ جماعت اسلامی کے ساتھیوں کو ایک خاندان کی مانند سمجھتے تھے۔ ان کے قریبی دوستوں میں جماعت اسلامی کے راجا بلال، رائو تقی، عبیدالرحمان، مولانا عبدالرئوف مرحوم کے صاحبزادے مولانا عطا الرحمان، محمد ابراہیم انصاری، شاہد رضا خان ودیگر افراد شامل تھے۔ شہید مرزا لقمان بیگ اور شہید محمد اسلم مجاہد سے انہیں بڑی انسیت اور محبت تھی اور ان کی شہادتوں کو وہ جماعت اسلامی کا بڑا نقصان قرار دیتے۔
شہید محمد اسلم مجاہد کی شہادت کے بعد لانڈھی کے حالات بڑے پر خطر ہوگئے تھے۔ دہشت گرد عناصر اسلحہ کے ساتھ ان کے گھر کے قریب دندناتے پھرتے تھے۔ جماعت اسلامی کے کئی افراد دیگر علاقوں میں شفٹ ہوگئے لیکن چاند شکیل ایک چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے اقامت دین کے راستے میں مار بھی کھائی، دھونس دھمکی بھی دی گئی لیکن چاند شکیل کے قدم نہیں ڈگمگائے اور وہ لانڈھی 36Bکی انتہائی پرخطر گلیوں میں دعوت حق کا پیغام اپنی سائیکل کے ذریعے پہنچاتے رہے۔ چاند شکیل کی عمر بمشکل پچاس سال کی ہوگی۔ انتقال والے دن وہ روزے سے تھے۔ فجر کی نماز کے بعد انہوں نے اپنے نمازی دوستوں کے ہمراہ قریبی گرائونڈ میں واک کی اور صبح گیارہ بجے کے قریب جب وہ اپنی سائیکل پر دوکان کے لیے کے ایریا مارکیٹ جا رہے تھے کہ گھر سے تھوڑی ہی دور ڈبل روڈ کرن بیکری کے قریب وہ اچانک سائیکل سے گرگئے انہیں فوری طور پر قریبی اسپتال پہنچایا گیا لیکن چاند شکیل روزے کی حالت میں اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے تھے۔ ان کی نماز جنازہ مولانا عبدالرئوف مرحوم کے صاحبزادے مولانا عطا الرحمان نے پڑھائی۔ نماز جنازہ میں ایک جم غفیر تھا اور وہ سب اپنے بھائی دوست اور اسلامی تحریک کے ایک ایسے خاموش سپاہی کو رخصت کرنے آئے تھے۔ جس نے اپنا سودا اپنے ربّ سے کیا ہوا تھا جو زندگی کی آخری سانسوں تک وہ اپنے مقصد حیات سے ڈٹا رہا۔ چاند شکیل کا ہنستا مسکراتا اور چمکتا دمکتا چہرہ اب ہمیں کبھی بھی دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ جماعت اسلامی کا ایک روشن چاند ڈوب گیا ہے۔ چاند شکیل کو جس وقت اسماعیل گوٹھ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تو تھوڑی دیر کے بعد چاروں طرف اذان مغرب کی آوازیں گونج رہی تھی اور ہم سب کھجور پر روزہ کھول رہے تھے اور چاند شکیل جس کا ہمیں پختہ یقین ہے کہ وہ جنت کے باغوں میں اپنے ساتھیوں شہید مرزا لقمان بیگ، شہید محمد اسلم مجاہد اور شہید جمال طاہر ودیگر شہداء کے ہمراہ روزہ افطارکر رہے ہوںگے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی ہی موت عطا فرما کہ سحری ہم اپنے گھر پر اور روزہ افطار جنت کے باغوں میں کریں۔