حسن افضال
جہاں انسان کا سب سے بڑا دشمن انسان ہے وہیں انسان کا سب سے بہترین دوست بھی انسان ہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انسانیت کے دشمن تاریخ کی کتابوں میں دفن ہو کر انسانیت کی رسوائی کا سبب بنتے ہیں جب کہ انسان دوست شخصیات پر تاریخ نازاں ہوتی ہے اور وہ تاریخ میں صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی زندہ رہتے ہیں۔ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے تو سب زندہ رہتے ہیں اور اُن کی ترقی و کامرانی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں لیکن معاشرے کے کمزور اور پسے ہوئے طبقے کا درد رکھنے والی شخصیات خال خال ہی ہوتی ہیں اور کسی بھی معاشرے میں اُن کا وجود نعمت غیر مترقبہ ہوتا ہے۔ قدرت کا نظام ہے کہ کوئی بھی معاشرہ ضرورت مندوں کا درد محسوس کرنے اور کسی لالچ اور صلہ کے بغیر اُن کے کام آنے والے افراد سے کبھی محروم نہیں رہا اور نہ کبھی محروم ہوگا، کیوں کہ ایسے ہی افراد کی وجہ سے یہ دنیا قائم ہے۔ سید لخت حسنین زیدی صاحب کا شمار بھی ایسے ہی خدا ترس اور صاحب حیثیت افراد میں ہوتا ہے جو ضرورت مندوں اور مستحق افراد کے درد کو نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ دامے، درمے، قدمے، سُخنے اُن کی مدد اور اُن کی زندگیوں میں آسانیاں فراہم کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ زیدی صاحب کے بزرگوں کا تعلق ضلع مظفر نگر، ساداتِ امروہا سے ہے جب کہ ان کا تعلق خالصتاً کراچی سے ہے۔ زیدی صاحب نے جامعہ کراچی سے درجہ اول میں سیاسیات میں ایم اے کیا۔ زمانہ طالبعلمی ہی سے وہ فلاحی کاموں میں سرگرم رہے ہیں۔ وہ طلبہ کو درپیش مسائل ہوں یا معاشرے کے دیگر طبقوں کے عمومی مسائل وہ ہر محاذ پر موجود نظر آتے ہیں۔ اُن کے جذبہ سماجی بہبود سے متاثر ہو کر مہتاب اکبر راشدی نے انہیں پی ٹی وی کے اپنے وقت کے مشہور زمانہ پروگرام ’’فروزاں‘‘ میں مدعو کیا۔ مذکورہ پروگرام میں انہوں نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد اُن کی اولین ترجیح انسانیت کی خدمت ہوگی اور آج طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی اُن کا جذبہ خدمت خلق توانا ہے اور وہ ہمہ وقت اس کارخیر میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جولائی 1977ء میں جب جنرل ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا تو یہ زیدی صاحب ہی تھے جنہوں نے مارشل لا کی سختیوں کے باوجود جمہوری حکومت کے خاتمے اور بھٹو کی گرفتاری کے خلاف طلبہ پلیٹ فارم سے شدید احتجاج کیا اور آمرانہ حکومت کے خلاف طلبہ کو متحرک کیا۔ اُس دور میں محترمہ فوزیہ وہاب جو پیپلز پارٹی سے منسلک تھیں بھی اُس تحریک میں زیدی صاحب کے ساتھ جمہوریت کی بحالی کی ابتدائی جدوجہد میں پیش پیش تھیں۔ بھٹو دور میں این ڈی وی پی کے تحت مختلف تعلیمی اداروں میں جو اساتذہ عارضی طور پر تعینات کیے گئے تھے انہیں ’’اسٹوڈنٹس اسٹیڈی سرکل‘‘ کے پلیٹ فارم سے ملازمتوں پر مستقل کروانے کا سہرا بھی زیدی صاحب کے سر جاتا ہے۔ پیشے کے لحاظ سے زیدی صاحب ایک کامیاب اور اچھی شہرت کے حامل گورنمنٹ کنٹریکٹر ہیں اور 1998ء سے 2004ء تک کنٹریکٹرز بینی فیشل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ مذکورہ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے زیدی صاحب نے کنٹریکٹرز ور سرکاری حکام کے درمیان موثر رابطہ کاری کا فریضہ انجام دیا اور کنٹریکٹرز کے مسائل حل کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ خدمت خلق کے شعبے میں میرے نزدیک زیدی صاحب کا سب سے قابل ذکر کام مستحق طلبہ و طالبات کے تعلیمی مسائل کے حل کی جانب پیش قدمی کرنا ہے۔ اس مقصد عظیم کے حصول کے لیے انہوں ںے ’’فروغ تعلیم مشن‘‘ کی بنیاد ڈالی، جس کے تحت مستحق طلبہ و طالبات کی فیس، درسی کتب اور یونی فارمز کا اہتمام تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ متعلقہ تعلیمی اداروں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور طلبہ و طالبات کی تعلیمی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں۔ نیز امتیازی نمبر حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔ زیدی صاحب کا جذبہ خدمت خلق یہاں ختم نہیں ہوجاتا بلکہ ضرورت مند اور نادار مریضوں کو علاج معالجے اور ادویہ کی سہولت بہم پہنچانے کے علاوہ ماہ رمضان اور عام ایام میں بھی مستحق گھرانوں میں راشن کی تقسیم، پانی کے ٹینکرز کی مفت فراہمی، مستحق گھرانوں کی بیٹیوں کی شادی کے موقع پر انہیں جہیز دینا اور کھانے کا اہتمام کرنا بھی ان کی سماجی خدمات میں شامل ہے۔ خلوص دل کے ساتھ انسانیت کی خدمت کی جائے تو وسائل کا حقوق ثانوی حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔ زیدی صاحب کے ساتھ بھی یہی صورت حال ہے، انہیں وسائل کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ صاحبان ثروت ان کے ایک اشارے پر تعاون کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ بلاشبہ انسانیت کی خدمت ہی ہر مذہب اور ہر مکتب فکر کی اساس ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ زیدی صاحب کے اس نیک جذبے کو مزید تقویت عطا کرے اور اُن کی عمر میں برکت دے (آمین)