جینا ہوگا مرنا ہوگا۔ کورونا کے ساتھ رہنا ہوگا

387

کورونا ایک ایسی وبا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ یہ ایک ایسی مصیبت ہے جس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا بہت مشکل ہے۔ فروری میں جب اس کا پہلا کیس ملک میں سامنے آیا اور اس سے پہلے پوری دنیا میں اس کا غائبانہ تعارف ہوا تو اس وقت اس کے بارے میں جو نظریہ پیش کیا گیا وہ یہ تھا کہ ابھی موسم سرد ہے جب گرمی کا موسم شروع ہوگا تو یہ وائرس اپنی موت آپ مر جائے گا۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ سرد موسم اب بالکل ختم ہو گیا اس کی جگہ گرم موسم آگیا اور اس کی شدت بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ اور کورونا وائرس بھی اپنے پورے جوبن پر ہے اب تک پوری دنیا کے مختلف ممالک میں تین لاکھ سے زائد افراد کام میں آچکے ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ اپریل میں تو یہ چلے گا جبکہ ماہ مئی یہ آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا لیکن نہیں ہوا پھر کہا گیا کہ ماہ جون میں اس وبا کا اختتام ہو جائے گا جو لوگ یہ پیش گوئیاں کررہے تھے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی وہ اندازوں سے کام لے رہے تھے۔ جون بھی آنے والا ہے تو اب کہا جارہا ہے کہ یہ ستمبر اکتوبر تک رہے گا۔
اب پوری دنیا سے یہ آوازیں آرہی ہیں کہ یہ وبا کبھی ختم نہیں ہوگی بلکہ اب ہمیں اسی کے ساتھ ہی جینا ہوگا اس لیے کہ اس عالمی وبا سے جلد نجات کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں اس لیے اب غیر معینہ مدت تک لاک ڈائون اور سارا کاروبار معطل رکھنے کے بجائے انسانی برادری معمولات زندگی بتدریج بحال کر کے اس وائرس کے ساتھ ہی رہنا سیکھے دنیا میں کئی ایسی بیماریاں ہیں جو ساری زندگی انسان کے ساتھ لگی ہوتی ہیں اور بسا اوقات اسی بیماری سے ان کا انتقال ہو جاتا ہے جیسے شوگر کا مرض ہے اب سے تقریباً نصف صدی قبل کی بات ہے میں اپنی والدہ کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس گیا والدہ اپنے آپ کو دکھانے گئیں تھیں مجھے اچھی طرح یاد ہے ڈاکٹر نے والدہ سے کہا کہ اماں آپ کو شوگر ہو گئی ہے اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اب ساری زندگی آپ کے ساتھ رہے گی دوائوں اور احتیاط سے اس مرض کو کنٹرول میں رکھنا ہوگا۔ اسی طرح ہارٹ کا مرض ہے اس کے بائی پاس ہوتے ہیں اور اینجوپلاسٹی ہوتی ہے لیکن مرض پھر بھی رہتا ہے اور اسی مرض میں وہ دنیا سے چلا جاتا ہے، ایک زمانے میں ٹی بی یعنی تپ دق کا مرض ایسا تھا جس کے بارے میں سنتے تھے کہ اس کو ٹی بی ہوگیا ہے تو سنتے ہی ایسے افسوس کا اظہار کرتے تھے کہ جیسے اس کی آدھی موت تو ابھی ہو گئی۔
پھر تپ دق کے مرض پر قابو پایا گیا تو کینسر کے مرض کا تعارف ہوا اب سے چند برس پہلے تک کینسر کا مطلب یقینی موت ہونا تھا جو کم و بیش اب بھی ہے لیکن اب اس میں بھی ایسی ادویات آگئی ہیں کہ اگر اس مرض کا ابتداء ہی میں پتا چل جائے تو بہت حدتک اس کا علاج ہوجاتا ہے اور مریض ٹھیک ہو جاتا ہے بریسٹ کینسر پر تو قابو پالیا گیا ہے، بلڈ کینسر ہو، پھیپھڑے کا کینسر ہو یا آنتوں کا کینسر ہو تو ایک طرح سے یہ لاعلاج ہی رہتا کبھی کبھی کچھ لوگوں کو فائدہ بھی ہوجاتا ہے۔ اسی سے ملتا جلتا ایک مرض ہیپاٹائٹس سی ہے اس مرض سے اب تک پوری دنیا میں 7کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اب یہ Bاور Cکے ساتھ Dبھی میدان میں آگیا ہے اس کا بھی براہ راست کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے بلکہ کچھ انجکشن ہیں جو مریض کو عارضی فائدہ پہنچاتے اس کی زندگی کچھ اور بڑھ جاتی ہے لیکن لوگ ان امرض کے ساتھ بھی برسوں زندگی گزارتے ہیں۔
نبی اکرمؐ کے پاس ایک خاتون آئیں اور آپؐ سے کہا کہ مجھے مرگی کے دورے پڑتے ہیں لوگوں کے سامنے بڑی شرمندگی ہوتی ہے آپ دعا فرمائیے کہ میرا یہ مرض ختم ہو جائے آپؐ نے ان خاتون سے کہا کہ میں دعا مانگ لوں گا اور تمہارا یہ مرض بھی ختم ہو جائے گا لیکن میں تم سے ایک معاہدہ کرنا چاہتا ہوں کہ تم اگر اس بیماری سے دوستی کرلو تو یہ بیماری تمہیں جنت میں لے جائے گی۔ اس خاتون نے جواب دیا کہ مجھے یہ سودا منظور ہے لیکن اتنی دعا ضرور کردیں کہ جو سب کے سامنے میرا حجاب کھل جاتا ہے ایسا نہ ہو تو بہت اچھا ہو گا آپ ؐ نے فرمایا کہ جائو اب ایسا نہیں ہوگا۔ یہ بیماریاں تو ویسے ہمارے گناہوں کا کفارہ بھی بن جاتی ہے لیکن جو بیماری برسوں سے ساتھ لگی ہوئی ہو وہ مریض کی آخرت بھی اچھی بن جانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
نبی اکرم ؐ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے اچانک موت اور طویل بیماری سے محفوظ فرما۔ یہ بڑی جامع دعا ہے طویل بیماری سے نہ صرف مریض خود عاجز آجاتا ہے بلکہ اس کے گھر والے بھی بیزار ہوجاتے ہیں۔ اچانک موت انسان کو توبہ کرنے موقع نہیں دیتی اس لیے جب آدمی بیمار ہوتا ہے تو وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے جن لوگوں کی اس سے کچھ حق تلفی ہوجاتی ہے اس حق کی ادئیگی کا موقع مل جاتا ہے بہر حال اب ہمیں کورونا وائرس کے ساتھ زندگی گزارنے کا طریقہ اور سلیقہ سیکھنا ہوگا اور اس کے بھی ایس او پی بنانا ہوگا۔