کسی زما نے میں ہم وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کو مرد رشید سمجھا کرتے تھے۔ اور ان سے ملاقات کرنے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ شیخ رشید بہاولپور کی جیل یاترا کو آگئے ایک دن آٹو پارٹس کے ایک ڈیلر صاحب ہمارے پاس آئے اور کہا آپ کو شیخ رشید صاحب نے بلایا ہے۔ ہم اس اعزاز پر بہت خوش ہوئے بلکہ خوشی سے نہال ہوئے وہ ہمیں اپنی بائک پر بیٹھا کر بہاولپور جیل لے گے اور جیلر صاحب سے کہا شیخ صاحب نے حسنی صاحب کو ملاقات کا وقت دیا ہے۔ ان کی ملاقات کرادینا کافی دیر تک بلاوا نہ آیا تو ہم نے جیلر صاحب سے کہا اگر شیخ رشید صاحب نے ملاقات کے لیے بلایا ہے تو انتظار کی صلیب پر کیوں لٹکایا ہوا ہے۔ جیلر صاحب نے کہا آج صبح صبح کوئی صاحبہ آئی ہیں وہ ان سے گفتگو میں مصروف ہیں۔ آثار و قرائن بتا رہے ہیں کہ آج آپ کی ملاقات نہ ہوسکے گی۔ ممکن ہے غسل وغیرہ سے فارغ ہوکر آپ کو طلب کریں ہم نے کہا ہمارے پاس فالتو وقت نہیں ہے سو ہم جار ہے ہیں۔ جب وہ فارغ ہوجائیں تو ہمیں بلا لینا ہم حاضر ہوجائیں گے۔ بعد میں کچھ دوستوں نے بتایا کہ شیخ جی کچے روڑ پر چہل قدمی کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہ بھی بتایا کہ سبک رفتار نہیں کبک رفتار ہیں۔ ممکن ہے دوستوں کا تبصرہ حسب حال ہو مگر ہم سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرتے یوں بھی کسی کی کردار کشی کرنا غیر شریفانہ عمل ہے۔
چودھری سمیع اللہ ہمارے دوست ہیں ان سے اس سلسلے میں گفتگو کرنا مناسب نا سمجھا حالانکہ وہ ان کے بہت قریب تھے اور ان کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتے تھے۔ مگر وہ جو مرد رشید کا تصور تھا بری طرح مجروح ہو گیا تھا۔ رہی سہی کسر ان کے تبصروں اور پیش گوئیوں کے پوری کردی، موصوف کا تکیہ کلام ہے کہ مجھے ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ ان کی بہت سی باتیں اور پیش گوئیوں اور موکل کی تسخیر کے دعوں نے بھی ان کی ذات کو مشکوک بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم اکثر محترم نجم سیٹھی کی چڑیا کے بارے میں سوچا کرتے تھے سیٹھی صاحب جب بھی اپنی چڑیا کا پیغام سنایا کرتے تھے ہم اپنی حق تلفی سمجھا کرتے تھے۔ ہمارا تعلق ایک حساس ادارے سے رہا ہے۔ اور ہمارا سروس ریکارڈ بھی بہت اچھا ہے۔ ان تمام باتوں پر غور کرکے ہم چڑیا پر اپنا حق سمجھتے تھے اور یہ سوچ سوچ کر حیران ہوا کرتے تھے کہ سیٹھی صاحب کو کس خوشی میں چڑیا دی گئی ہے مگر اب یہ حیرانی اور پریشانی دور ہوچکی ہے کیونکہ شیخ صاحب نے انکشاف کیا ہے کہ چڑیا کو گھونسلے میں بند کردیا گیا ہے۔ گویا سیٹھی صاحب کی چڑیا سابق صدر محترم آصف علی زرداری تھے جو انہیں اندر کی خبریں دیا کرتے تھے۔ شیخ جی اکثر فرماتے ہیں کہ عمران خان کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ سوال یہ کہ وہ دن کب آئے گا؟ شاید یوم حساب پر کرپٹ لوگوں کا حساب ہوگا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کرپٹ لوگوں کی فہرست بنا لی گئی ہے بہت جلد ان کا حساب کتاب ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ چینی، آٹا روز بروز عوام کی پہنچ سے دور کیوں ہوتا جارہا ہے۔ شاید تحریک انصاف کے جن لوگوں کو قربانی کا بکرا بنایا جائے گا ان کو اتنا منافع دیا جارہا ہے جو ان سے جرمانے کے طور پر وصول کیا جائے گا۔ اور وزیر اعظم عمران خان کے حواری ڈھنڈوا پیٹیں گے کہ عمران خان نے کسی کرپٹ کو معاف نہ کرنے کا وعدہ پورا کردیا ہے۔ واقعی قوم اتنی بھولی ہے۔