بلوچستان میں نایاب سانپوں کے شکار اور اسمگلنگ میں کمی

729

بلوچستان میں نایاب سانپوں کے شکار، اسمگلنگ اور دیگر طریقوں سے ان کو قبضے میں لینے کا رحجان کم ہوا ہے لیکن اب بھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ قیمتی اور نایاب انواع کا تحفظ کیا جاسکے۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بلوچستان کے بعض اضلاع نایاب سانپوں کے لحاظ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں ۔ان میں ایک لیف نوز وائپر ہے جس کا ایک گرام کرسٹل حالت کا زہر ہزاروں یورو میں فروخت ہوتا ہے۔اب ہرپٹوزووا نامی جرنل میں پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری اور پشاور یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک سروے کی تفصیل شائع کی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ 2013 کےبعد صوبائی حکومت کے سخت اقدامات کی وجہ سے نایاب سانپوں کے شکار اور پکڑنے کے رحجان میں واضح کمی ہوئی ہے۔ان سانپوں کو پالنے، ادویہ سازی اور سانپ کے تماشے کے لیے بھی پکڑا جاتا ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کے سانپوں کی بقا کو خطرہ لاحق تھا لیکن اب یہ رحجان کم ہورہا ہے۔تحقیقی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سانپوں کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ اسمگلنگ اور شکار کا مافیا اتنا بڑا ہے کہ اس کی ہر کارروائی کو ریکارڈ پر لانا بھی ممکن نہیں ہے۔لیکن 2013 کے بعد خود بلوچستان اور پاکستان میں ایسے کئی افراد کو پکڑا گیا ہے جو سانپوں کی چوری میں ملوث تھے۔ تحقیقی جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مرکزی مصنف ڈاکٹررفاقت مسرور ہیں۔انہوں نے 2013 سے 2017 تک چاغی، پنجگور، نوشکی، خاران اور واشک کا سفر کیا جہاں انہوں نے غیرقانونی طور پر سانپ پکڑنے والے 73 افراد کا انٹرویو لیا۔ان میں لوگ گروہ کی صورت میں کام کرتے ہیں جن میں 14 سے لے کر 50 سال تک کے لوگ بھی شامل ہیں۔سانپوں کو پکڑنا اور اس کے تماشے دکھانا ہی ان لوگوں کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔ تاہم ان میں سندھ کے جوگی بھی شامل ہیں۔دوسری جانب کراچی اور دیگر شہروں کے مقامی حکیم بھی سانپوں کو خریدتے اور پکڑتے ہیں۔دوسری جانب مقامی آبادی سانپوں کو مارنے سے نہیں چوکتی اور ان کے زہر کے ڈر سے سانپوں اور چھپکلیوں کو مارڈالتی ہے۔ماہرین نے اس دوران غیرقانونی طور پر پکڑے گئے 5370 سانپوں کو بھی پکڑا گیا جو 19 مختلف مگر نایاب ترین اور تحفظ شدہ انواع میں شامل تھے۔اس لحاظ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بہت مؤثر دیکھے گئے۔لیکن پاکستانی ماہرین نے مزید سخت اقدامات پر زور دیا ہے اور سائنسی تحقیق کے لیے سانپوں سے زہر کے اخراج پر مکمل پابندی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔