تبدیلی کو آواز دو

302

یہ بات بالکل بھی درست نہیں ہے کہ جب بھی لفظ تبدیلی استعمال کیا جائے یا لکھا جائے تو اسے تحریک انصاف کے انتخابی نعرے سے منسوب کردیا جائے۔ تبدیلی ایک حکومت کی جگہ دوسری حکومت آجانے یا کسی ایک جماعت کی حکومت ختم ہوجانے اور دوسری کی حکومت آجانے کا نام نہیں ہے۔ لہٰذا یہ غلط فہمی دور ہوجانی چاہیے‘ یہاں اب یہ بحث جنم لے سکتی ہے کہ پھر تبدیلی کس چڑیا کا نام ہے‘ جب لفظ چڑیا لکھا تو جلدی سے یہ چریا لکھا گیا‘ لیکن اسے درست کرکے چڑیا لکھ دیا ہے اور اچھی طرح پڑتال بھی کرلی کہ لفظ چڑیا ہی لکھا گیا ہے‘ بس تبدیلی بھی غلط کو درست کرنے کے عمل کا نام ہے‘ درست کو پھر سے غلط کردینے کا نام تبدیلی نہیں ہے۔ دسمبر1906 سے پہلے برصغیر میں مسلمانوں کی قیادت متحد نہیں تھی‘ منظم بھی نہیں تھی‘ مگر مسلمان ایک قوت ضرور تھے۔ مسلم لیگ قائم ہوئی تو اگست1947 میں برصغیر میں تبدیلی بھی آگئی‘ جب باہم نااتفاقی بڑھی تو سقوط ڈھاکا ہوگیا‘ لیکن اسے تبدیلی لکھا جاسکتا ہے اور نہ بولا جاسکتا ہے۔
2002 کے بعد ملک میں منتخب ہونے والی ہر پارلیمنٹ نے اپنی آئنی مدت پوری کی ہے۔ یہ سیاسی فضا ملک میں 1947 سے لے کر 2002 تک نہیں تھی‘1970 سے 1999 تک ملک میں سات بار عام انتخابات ہوئے اور سات بار پارلیمنٹ منتخب ہوئی لیکن کوئی بھی پارلیمنٹ اپنی مدت پوری نہیں کرسکی۔ 2002 کے بعد تبدیلی آئی ہے اور اب تک تین پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرنے کاکامیاب رہی ہیں اور اس وقت چوتھی پارلیمنٹ اپنی پہلی نصف مدت مکمل کرنے جارہی ہے‘ گزشتہ حکومتوں اور آج کی حکومت میں فرق کیا ہے؟ محض چہروں کا فرق؟ نہیں‘ چہرے تقریباً وہی ہیں فرق صرف قیادت میں آیا ہے‘ صرف وزیر اعظم کا چہرہ تبدیل ہوا ہے‘ توکیا یہی تبدیلی ہے؟ یہی تبدیلی مقصود تھی؟ حکومت پارلیمانی نظام میں بطور انتظامیہ پارلیمنٹ کو جواب دے ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ ملک میں قانون سازی کرنے کا حق رکھتی ہے‘ ماضی سے اب ملک میں قانون سازی صرف وقتی ضرورت پورا کرنے کے لیے کی گئی‘ کبھی محسوس ہوا کہ صدر مضبوط ہے اور وزیر اعظم کمزور‘ تو آئین میں ترمیم کرکے توازن پیدا کرلیا گیا‘ آئین میں 13 ویں ترمیم یہی ہے‘ جب جنرل مشرف آئے تو آئین میں پھر تبدیلی لائی گئی‘ اسے 17ویں ترمیم کے نیچے تحفظ دیا گیا‘ اس کے بعد آئین میں 18 ویں ترمیم لائی گئی‘ اس ترمیم کی غلطیاں دور کرنے کے لیے آئین میں انسیویں‘ بیسویں اور اکسیویں ترمیم لائی گئی‘ لیکن اس سب کے باوجود تبدیلی کہیں نظر نہیں آرہی۔ اب حکومت پھر آئین میں ترمیم چاہتی ہے‘ صوبوں کے کچھ اختیارات واپس مرکز کو دیے جانے کی تجویز زیر بحث ہے‘ لیکن علاقائی جماعتیں مزاحمت کریں گی۔ مسلم لیگ(ن) کے شاہد خاقان عباسی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ایسا ہوا تو وہ سیاست ہی چھوڑ دیں گے۔
عمران خان سمجھتے ہیں کہ قومی اخراجات کے لیے صوبے مرکز کا ہاتھ بٹائیں‘ صوبے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی جیب نہیں کٹنے دیں گے‘ جیب کون کاٹتا ہے؟ بس میں سفر کریں تو اکثر لکھا ہوا ملتا ہے کہ جیب کتروں سے ہوشیار رہیں‘ لیکن شاید یہ نصیحت صرف سفر کے دوران تک ہی محدود ہے‘ لیکن ماضی قریب میں اس وقت کے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کی جیب عین اس وقت کٹ گئی جو وہ ایک اہم سیاسی شخصیت کے جنازے میں شریک تھے اور نماز جنازہ بھی گورنر ہائوس پنجاب میں ادا کی گئی تھی‘ اس سے ظاہر ہوا کہ جیب کہیں بھی کٹ سکتی ہے آج کل تو کورونا ہے اور کورونا کے مریضوں کے لیے لازم ہے وہ تن درست ہونے تک قرنطینہ میں رہیں‘ لیکن اسلام آباد میں کسی بھی سرکاری قرنطینہ میں سکون نہیں ہے‘ یہاں ہر چھوٹا بڑا ہوٹل، ہوسٹل اور کمیونٹی سینٹر قرنطینہ بنایا گیا ہے مگر یہاں سفارش چلتی ہے۔ اسے بھی لوگ تبدیلی کہتے ہیں‘ حالانکہ یہ کام تو کسی بھی طرح تبدیلی کی تعریف پر پورا نہیں اترتا ہاں صرف یہ کیمیائی تبدیلی کا لبادہ ہے ساری زندگی قیمتی زرمبادلہ دینے والے اور وطن عزیز کے لیے خدمات سر انجام دینے والے تارکین وطن جب خصوصی فلائٹس سے لوٹے ہیں تو ان سے دگنا تگنا کرایہ وصول کیا گیا‘ قرنطینہ کی فیس الگ سے ہے‘ سب کچھ ہے مگر سہولتیں نہیں ہیں‘ حکومت کو چاہیے کہ ایک بار وقت نکال کر ضرور اپنے سرکاری قرنطینہ سینٹرزکا جائزہ لے۔
او جی ڈی سی ایل کا نام لکھیں گے تو اعتراض ہوگا‘ لہٰذا کسی کو تنگ کیے بغیر لکھنا ہے کہ وہ بھی اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرے‘ کچھ روز قبل ٹیلی تھون سجائی گئی تھی‘ اس دوران ایک ارب کے اخراجات کے بدلے پچپن کروڑ روپے کے وعدے لے لیے گئے؟ یہ بھی تبدیلی ہے؟ لاہور سمیت دیگر شہروں میں بنائے قرنطینہ سینٹرز سے جو ویڈیوز آرہی ہیں ان کے مطابق کورونا مریضوں کو سوائے محبوس رکھنے کے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہورہا ہے۔ وزیر صحت پنجاب نے جس طرح ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ ملاکھڑا کر رکھا ہے جو کسی بھی لحاظ سے ان کے اچھے سیاستدان ہونے کی نشانی نہیں ہے حکومت تو حکومت ہے‘ حزب اختلاف بھی کسی سے کم نہیں ہے‘ اور عوام اس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں انتہائی کمی کے باوجود مہنگا تیل خرید رہے ہیں‘ تبدیلی سے متعلق اور کچھ نہیں کہنا۔