جنوبی ایشیا کی بدمعاش ریاست

565

امریکا کے ممتاز دانش ور نوم چومسکی امریکا کو دنیا کی سب سے بڑی بدمعاش ریاست کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا پوری دنیا میں ظلم و جبر کی علامت ہے۔ دنیا کی کوئی چھوٹی اور کمزور ریاست اس کی دست برد سے محفوظ نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہندوستان کو بلاخوف تردید جنوبی ایشیا کی ’’بدمعاش ریاست‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ جنوبی ایشیا کا ہر ملک ہندوستان کے ظلم و جبر سے پریشان ہے۔
اس کا تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ ہندوستان کے سابق فوجی افسر میجر (ر) گورو آریا نے ایک بھارتی ٹیلی ویژن پروگرام میں اعتراف کیا ہے کہ وہ بلوچستان کے دائرے میں موجود دہشت گردوں سے رابطے میں ہیں۔ انہوں نے اسکرین پر اپنا موبائل فون لہراتے ہوئے کہا کہ اس فون میں دہشت گردوں کے نمبر ہیں۔ انہوں نے چند روز پیش تر بلوچستان میں پاک فوج پر ہونے والے حملے کی پیش گوئی کی تھی۔ انہوں نے کہا وہ پاکستانیوی کو ایسا جواب دیں گے کہ ان کی آئندہ دس نسلیں یاد رکھیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہندواڑہ کا بدلہ بلوچستان میں لیں گے۔ (روزنامہ دنیا۔ 10 مئی 2020)
ہندوستان کی کم ظرف سیاسی قیادت نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ چناں چہ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے ہمیشہ ہاتھ پائوں مارتی رہی ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان کی قیادت نے ہندوستان کو مشرقی پاکستان میں مداخلت کا موقع دیا۔ مشرقی پاکستان کے مسئلے کا حل سیاسی تھا مگر پاکستان کی فوجی قیادت نے طاقت کے زور پر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں بھارت کو مشرقی پاکستان میں گھس کر اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ آدھا پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے سرعام پاکستان کے دولخت ہونے کا جشن منایا۔ انہوں نے صاف کہا ہے کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے اور آج ہم نے ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے۔ نریندر مودی نے اپنے گزشتہ دورے پر بنگلادیش میں اعتراف کیا کہ وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی مہم میں ایک رضا کار کے طور پر شریک تھے۔ ہندوستان کی کمی ظرفی کا عالم یہ ہے کہ وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر مطمئن نہ ہوا اس نے بچے کھچے پاکستان کو بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کی ناپاک مہم جاری رکھی اور اگر پاکستان کے پاس ڈاکٹر قدیر کا بنایا ہوا ایٹم بم نہ ہوتا تو ہندوستان پاکستان کو کبھی کا نیست ونابود کرچکا ہوتا۔ اس لیے ہم اپنے کالموں میں عرض کرتے رہے ہیں کہ ڈاکٹر قدیر کی اہمیت یہ ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان ’’بنایا‘‘ اور ڈاکٹر قدیر نے پاکستان ’’بچایا‘‘۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں ہندوستان پاکستان پر بڑے حملے کے لیے تیار تھا لیکن جنرل ضیا کی ’’ایٹمی دھمکی‘‘ نے ہندوستان کو خوف میں مبتلا کردیا اور وہ اپنے ناپاک منصوبے پر عمل سے باز رہا۔ ہندوستان نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ اربوں ڈالر صرف کرکے بڑی چھائونیاں بنائیں تا کہ وہ عددی اکثریت کے بل پر پاکستان کو دبوچ لے مگر پاکستان نے چھوٹے ایٹم بنا کر بھارت کے اس ناپاک منصوبے کو بھی خاک میں ملادیا۔ پاکستان کے ان چھوٹے ایٹم بموں سے جنوبی ایشیا کی بدمعاش ریاست ہی کو نہیں نوم چومسکی کی بدمعاش ریاست کو بھی سخت تکلیف ہے اور وہ پاکستان پر ان ایٹم بموں کو تلف کرنے اور ان کی پیداوار روک دینے کے لیے دبائو ڈالتی رہی ہے۔ لیکن جنوبی ایشیا کی بدمعاش ریاست سے صرف پاکستان، بھارت کے مسلمان اور اہل پاکستان ہی پریشان نہیں۔
سکھ ہندوستان کے ازلی اور ابدی اتحادی ہیں۔ سکھ مذہب ہندو ازم سے بہت مختلف ہے۔ سکھوں کی مذہبی کتاب گروگرنتھ صاحب توحید کا درس دیتی ہے۔ گروگرنتھ صاحب میں مسلم صوفیا کے اقوال موجود ہیں مگر ہندو ازم نے سکھ مذہب کو اپنے اندر اس طرح جذب کرلیا ہے کہ سکھ ازم ہندو ازم کا ایک فرقہ یا مسلک محسوس ہوتا ہے۔ سکھ ہندوئوں کے تہوار مناتے ہیں۔ ان کی طرح کے نام رکھتے ہیں، ان کی طرح کا لباس پہنتے ہیں یہاں تک کہ ہندوستان میں سکھوں اور ہندوئوں میں امتیاز کرنا دشوار ہوتا ہے مگر ان تمام باتوں کے باوجود اندرا گاندھی نے سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹمپل پر ٹینک چڑھا دیے۔ گولڈن ٹمپل سکھوں کا کعبہ تھا مگر اندرا گاندھی نے اسے ایک شراب خانے کے برابر بھی اہمیت نہ دی۔ اندرا گاندھی کا کہنا تھا کہ گولڈ ٹمپل میں باغی سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والا اور اس کے ساتھی چھپے ہوئے تھے لیکن ان کو پکڑنے کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ ان تک غذا اور پانی نہ پہنچنے دیا جاتا مگر اندرا گاندھی نے ان کا محاصرہ کرنے کے بجائے سکھوں کے کعبے کو روند ڈالا۔ ردِعمل میں اندرا گاندھی کے دو سکھ محافظوں نے اندرا گاندھی کو قتل کردیا۔ یہ ان محافظوں کا ’’انفرادی فعل‘‘ تھا پوری سکھ برادری اس فعل میں شریک نہ تھی مگر ہندوئوں نے صرف دہلی کے اندر ایک دن میں دو سے تین ہزار سکھ مار ڈالے۔ انہوں نے سکھوں کی بستیوں پر منظم حملے کیے۔ حملہ کرنے والے آر ایس ایس کے ’’جنونی‘‘ نہیں تھے یہ سب ’’معقول‘‘ کہلانے والی کانگریس کے لوگ تھے۔ اس سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ جب مسلمانوں یا غیر ہندوئوں کو مارنے کا موقع آتا ہے تو پھر بی جے پی اور کانگریس کے لوگوں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔
نیپال چند سال پہلے تک آئینی اعتبار سے ایک ہندو ریاست تھا۔ اس نے کچھ عرصہ پہلے ہی آئین میں تبدیلی کرکے خود کو سیکولر قرار دیا ہے۔ اس اعتبار سے نیپال کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کو ’’مثالی‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ نیپال پاکستان نہیں ہے اور نہ ہی وہ ہندوستان کے ٹکڑے کرکے وجود میں آیا ہے۔ مگر اس کے باوجود ہندوستان نے کئی دہائیوں سے نیپال کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ نیپال آئین بناتا ہے تو ہندوستان کہتا ہے ہماری مرضی کے مطابق آئین بنائو۔ نیپال میں انتخابات ہوتے ہیں تو ہندوستان اُن میں مداخلت کرتا ہے۔ نیپال آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے چین کے قریب ہوتا ہے تو جنوبی ایشیا کی بدمعاش ریاست اسے آنکھیں دکھاتی ہے۔ تازہ ترین واردات یہ ہوئی ہے کہ ہندوستان نے نیپال کی سرحد کے اندر موجود بعض علاقوں کو ہندوستان میں شامل کرلیا ہے۔ اس پر نیپال میں زبردست احتجاج ہورہا ہے۔ نیپال کی وزارت خارجہ نے بھارت کے سفیر کو طلب کرکے اس سے باضابطہ احتجاج کیا ہے اور ایک احتجاجی مراسلہ اس کے حوالے کیا ہے۔ نیپال ہندوستان کی مزاحمت کرتا ہے تو ہندوستان کبھی نیپال کو غذا کی ترسیل روک دیتا ہے، کبھی اسے پٹرول فراہم کرنا بند کردیتا ہے، یعنی ہندوستان جس طرح پاکستان کو بتاتا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کی بدمعاش ریاست ہے اس طرح وہ نیپال کو باور کراتا ہے کہ ہندوستان علاقے کی واحد بدمعاش ریاست ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ نیپال ہندو ریاست ہونے کے باوجود کمیونسٹ چین کے قریب ہوتا جارہا ہے۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ سری لنکا میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو ہندوستان نے اس خانہ جنگی میں متحرک کردار ادا کیا۔ چناں چہ ایک سری لنکن عورت خود سے بم باندھ کر ہندوستان کے وزیراعظم راجیو گاندھی سے ٹکرا گئی اور ان کے پرخچے اڑا دیے۔ سری لنکا بدھوں اور ہندوئوں کا ملک ہے مگر اس کے تعلقات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ بہت خوشگوار ہیں۔ اس کے برعکس ہندوستان کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدگی کے آس پاس منڈلاتے رہتے ہیں۔ مالدیپ جنوبی ایشیا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے، بھارت ایک زمانے میں یہاں اپنی فوج اتار چکا ہے۔ برما یا میانمر کو ہندوستان اپنے ایک صوبے کے طور پر لیتا ہے۔ قیام بنگلادیش میں ہندوستان کا کردار بنیادی ہے۔ چناں چہ ہندوستان اور بنگلادیش کے تعلقات دوستانہ ہونے چاہیے تھے مگر ہندوستان نے اپنی فطرت کے تحت بنگلادیش کو دوست بنانے کے بجائے اسے اپنی ’’کالونی‘‘ بنانے میں دلچسپی لی اور آج کروڑوں بنگلادیشی خود کو بھارت کی ایک کالونی سمجھتے ہیں۔ چوں کہ بنگلادیش کو کالونی بنانے کا عمل شیخ مجیب کے زمانے ہی میں شروع ہوگیا تھا چناں چہ شیخ مجیب کے خلاف ان کی فوج نے بغاوت کردی اور شیخ جیب سمیت ان کے تمام اہل خانہ کو مار ڈالا۔ حسینہ واجد اس وقت ملک میں موجود نہ تھیں اس لیے وہ بچ گئیں۔ ملک میں ہوتیں تو وہ بھی ماری جاتیں۔ حسینہ واجد خود کو بھارت دوست کہتی ہیں مگر حالیہ دنوں میں ان کے تعلقات بھی بھارت کے ساتھ خراب ہوئے ہیں۔ اس لیے کہ بھارت دھمکی دے رہا ہے کہ وہ لاکھوں ہندوستانیوں کو بنگالی قرار دے کر انہیں بنگلادیش میں دھکیل دے گا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت ’’میرٹ‘‘ پر جنوبی ایشیا کی واحد بدمعاش ریاست بن کر اُبھرتا ہے۔ اس ریاست کے ظلم و جبر سے خطے کا ہر ملک اور ہر قوم پریشان ہے۔ تاریخی اعتبار سے بھارت کبھی بھی ایک ’’سیاسی وحدت‘‘ نہیں رہا مگر ہندوستان کے اسکولوں میں ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کی جو تاریخ پڑھائی جارہی ہے اس کے دائرے میں پاکستان ہی نہیں۔ سری لنکا، مالدیپ، برما، سری لنکا، بنگلادیش اور افغانستان ہی نہیں انڈونیشیا بھی اکھنڈ بھارت کا حصہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہندوستان نہ صرف یہ کہ خود بدمعاش ریاست ہے بلکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو ’’بدمعاش نسلوں‘‘ کے طور پر پروان چڑھا رہا ہے۔