طالبان اورگلوبل ایجنڈے کا جھنڈا

266

امریکا کے نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے بھارت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مشورہ دے کر حقیقت میں ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ زلمے خلیل زاد کا یہ مشور الل ٹپ نہیں ہے اور اس کے پیچھے امریکا کی سفارت کاری اور پاکستان کی شکایات بھی رہی ہوں گی۔ بھارت کی طرف سے اس کوشش کی مزاحمت کے بعد ہی امریکا نمائندے کو برسرعام یہ مطالبہ دہرانا پڑا۔ اب بھارت میں اس مشورے پر کھلے بندوں بحث ہو رہی ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کے فوائد اور نقصانات پر بات ہورہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ امریکا نے یہ منصوبہ بھارتی رائے عامہ کے جائزے کے لیے مشتہر کردیا۔ کل تک بھارت جس بات کو بعید ازامکان اور ناممکن قرار دے رہا تھا اب ’’اگر مگر‘‘ کے ساتھ اس بات پر رضامندی ظاہر کی جانے لگی ہے۔ طالبان اور بھارت کا ایک میز پر بیٹھنا اب قطعی ناممکن نہیں رہا مگر اس کے لیے بھارت کو اپنے ماضی کے طور طریقے بدلنا ہوں گے۔ امریکا افغانستان سے رخصتی کی راہ لے چکا ہے مگر اس خلا کو کون پُر کرے گا؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ افغان حکومت میں امریکی خلا کو پر کرنے کی رتی برابر صلاحیت ہوتی تو وہ امریکیوں کا دامن پکڑ کر ہرگز گڑگڑاتے ہوئے اپنا قیام افغانستان طویل کرنے کی درخواست نہ کرتی مگر امریکا کی مجبوریاں آڑے آگئیں اور وہ ان درخواستوں کا بوجھ مزید اُٹھانے سے انکاری ہوا۔ امریکا کی افغانستان میں آمد کا مقصد اسی وقت پورا ہوگیا تھا جب ایبٹ آباد آپریشن میں انہوں نے اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ امریکا کی افغانستان پر ساری چڑھائی کے پیچھے اسامہ بن لادن کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لانا تھا تاکہ وہ نائن الیون کے سب سے مرکزی کردار کو انجام تک پہنچا کر اپنی انا کی تسکین کر سکیں اور اپنے عوام کو یہ باور کراسکیں ان پر حملے کا سب سے اہم مرتکب ان کے غیظ وغضب کا شکار ہو گیا ہے۔ انا کی یہ تسکین حاصل ہونے کے بعد امریکا کے لیے یہ جنگ قطعی بے مقصد ہو کر رہ گئی تھی۔
افغانستان میں ان کی موجودگی کی دوسری پرت کا تعلق چین پر نظر رکھنے سے تھا مگر نظر رکھنے کے لیے فوجیوں کا حالت جنگ میں رہنا اور مرنا مارنا ضروری نہیں ہوتا۔ یہ مقصد ساحل پر وہیل مچھلی کی طرح بے سُدھ پڑے رہنے سے زیادہ بہتر انداز میں حاصل کیا جا سکتا تھا۔ امریکا اپنی واپسی کو ایک فاتحانہ نہ سہی تو شکست کا رنگ بھی نہیں دینا چاہتا تھا اور یہ اسی صورت ممکن تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ ایک ڈیل کرے اور اس ڈیل کا راستہ صرف پاکستان سے ہو کر ہی جاتا تھا۔ امریکا اور پاکستان میں اعتماد کا بحران کم کرنے میں برسوں لگے تو افغانستان میں امریکا طالبان ڈیل کی راہ ہموار ہو گئی۔ ایک دور میں امریکا کی خواہش تھی کہ اس کے فوجی خلا کو بھارت آگے بڑھ کر پُر کرے۔ بھارت اس حوالے سے ہمیشہ مخمصوں کا شکار رہا۔ بھارت نے اسی کی دہائی میں سری لنکا کی باقاعدہ فوج کشی سے حاصل ہونے والا سبق پلے باندھ لیا تھا۔ مشرقی پاکستان کی بات اور تھی جہاں ایک عالمی مفاہمت اور دنیا کا گرین سگنل ملنے اور پاکستان کے فیصلہ سازوں کی رضامندی کے بعد بھارتی فوج داخل ہوئی تھی۔ سر ی لنکا میں داخل ہونے والی بھارتی فوج کو اپنے ہی تراشیدہ تامل گوریلوں نے وہ سبق سکھایا تھا کہ اُلٹے پائوں بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ تامل گوریلوں نے اپنی آتش انتقام کو اس وقت تک دہکتا اور بھڑکتا رکھا جب تک کہ ایک خود کش حملے میں راجیو گاندھی قتل نہ ہوئے۔ سری لنکا سے حاصل ہونے والے اس سبق کی روشنی میں بھارت کے لیے افغانستان میں امریکا کا خلا عملی اور فوجی طور پر پُر کرنا ایک خوفناک تصور رہا ہے۔ شاید بھارت کے منصوبہ سازوں نے اس پہلو سے کبھی سوچا بھی نہیں۔ ان کے لیے کابل کے حکمرانوں کے پیچھے چھپنا اور پیسہ پانی کی طرح بہا کر عوامی سطح پر واہ واہ حاصل کرنا ایک آسان راستہ رہا۔ سڑکیں، پل اور پرشکوہ عمارات بنانے سے اپنا عوام دوستی کا امیج تو بنایا جا سکتا تھا مگر اس سے طالبان کے حملوں کا شکار کابل حکومت کی عملی مدد کیسے ہو سکتی تھی؟۔ امریکی تو ان کے تحفظ کے لیے سترہ برس میں چوبیس سو سے زیادہ جانیں گنوا بیٹھے تھے اور ہزاروں زخمی اور دوسرا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ بھارت صرف پیسہ پھینک کر دوستی کا حق ادا کرنا چاہتا تھا۔ اب بھی جب امریکا افغانستان سے رخصت ہو رہا تو بھارت عملی طور پر اس خلا کو پُر کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے سے بھی قاصر ہے۔
امریکیوں کے لیے بھارت کی افغان دوستی محض کتابی بات ہے اور ٹرمپ بھارت کے اس کردار پر طنز کر چکے ہیں کہ جب امریکی جانیں دے رہے تھے تو بھارت افغانوں کے تحفظ کے لیے لائبریریاں تعمیر کر رہا تھا۔ یوں امریکا خود کو افغانستان میں خون دینے والا اور بھارت کو دودھ پینے والا مجنوں سمجھنے لگا اور بھارت کے اس رویے نے امریکا کو افغانستان میں مایوس کرکے پاکستان اور طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنے پر مجبور کیا۔ اب عالم یہ ہے امریکا بھارت کو بتا چکا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی غیر ضروری موجودگی کو کم کرے۔ افغانستان میں اس کے چار قونصل خانے پاکستان کے لیے ہمیشہ وجہ اعتراض رہے ہیں اور بالخصوص جلال آباد کا قونصل خانہ پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کا مرکز سمجھا جاتا رہا۔ اب کورونا کی وبا کے باعث بھارت نے جلال اور ہرات کے قونصل خانوں میں سرگرمیاں قریب قریب معطل کردی ہیں کیا عجب کہ اب یہ عمارتیں دوبارہ اپنے مکینوں کی راہ ہی تکتی رہیں۔ یہی نہیں امریکا نے بھارت کو بتایا کہ طالبان اچھے ہیں یا برے بھارت ان سے براہ راست معاملات طے کرے۔
امریکا کی رخصتی کے بعد کابل حکومت اور طالبان کے درمیان جنگ جاری رہتی ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ بھارت اس میں پس پردہ کردار ادا کرتا رہے گا گویا کہ وہ طالبان کے ساتھ بچ بچا کر جنگ لڑتا رہے گا۔ شاید یہی وجہ ہے طالبان نے بھارت کو انتباہ کیا ہے کہ اس نے ہمیشہ غداروں کا ساتھ دیا ہے دوحہ میں طالبان کے دفتر کے منتظم اور چیف مذاکرات کار شیر محمد عباس کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بھارت کی موجودگی چالیس سال سے ہے لیکن اس نے کبھی افغان عوام کی مدد نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت افغانستان میں اپنا مثبت کردار ادا کرے تو طالبان کو مذاکرات کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان بھارت سے مذاکرات کو خارج ازمکان نہیں سمجھ رہے۔ ظاہر ہے وہ کسی بھی ملک سے مذاکرات سے انکار کریں بھی تو کیوں؟ ایسے میں جب وہ ایک ملیشیا سے حکومت و ریاست میں ڈھلنے کے عمل میں ہیں۔ وہ امریکا سے معاہدے میں ’’امارت اسلامی‘‘ کا گول مول سرٹیفکیٹ حاصل کرچکے ہیں تو بھارت کس کھیت کی مولی ہے۔ طالبان جب ایک ریاست کے طور پر ڈھل رہے ہیں تو ایسے میں ان کا غزوہ ہند کے نام پر کشمیر یا بھارت سمیت کسی مقام پر مداخلت کرنا قطعی بعید ازقیاس ہے جیسا کہ طالبان کے ترجمان سے منسوب ایک پراسرار خبر میں کہا گیا تھا جس کی بعد میں طالبان نے سختی سے تردید کی۔ طالبان اس مرحلے پر کسی گلوبل ایجنڈے کا جھنڈا لہرانے کی وہ غلطی نہیں دہرانا چاہتے جس کے آڑ میں امریکا نے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔ طالبان کے لیے بڑی کامیابی یہی ہوگی اگر کہ وہ اپنی سرزمین کو بھارت کے پس پردہ مقاصد اور پراکسی وار کے بوجھ سے آزاد کرتے ہیں اور نہ صرف طالبان بلکہ امریکا بھی یہ حقیقت پا چکا ہے کہ یہی افغانستان میں پائیدار امن کا راستہ ہے کیونکہ بھارت کی افغانستان سے اصل دلچسپی پاکستان کی چٹکی کاٹنے کی آسانی اور سہولت تک محدود ہے۔