پہلے بشیر بدر کی ایک غزل، دوسری جنگ عظیم کے تناظر میں ایک واقعہ، پھر کالم:
٭ ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے۔۔۔ کہیں کاروبار سی دوپہر کہیں بد مزاج سی شام ہے۔۔۔ کہاں اب دعائوںکی برکتیں وہ نصیحتیں وہ ہدایتیں۔۔۔ یہ ضرورتوں کا خلوص ہے یہ مطالبوں کا سلام ہے۔۔۔ یوں ہی روز ملنے کی آرزو بڑی رکھ رکھائو کی گفتگو۔۔۔ یہ شرافتیں نہیں بے غرض، اسے آپ سے کوئی کام ہے۔۔۔ وہ دلوں میں آگ لگائے گا، میں دلوں کی آگ بجھائوں گا۔۔۔ اسے اپنے کام سے کام ہے مجھے اپنے کام سے کام ہے۔۔۔ نہ اداس ہو نہ ملال کر، کسی بات کا نہ خیال کر۔۔۔ کئی سال بعد ملے ہیں ہم، تیرے نام آج کی شام ہے۔۔۔ کوئی نغمہ دھوپ کے گائوں سا، کوئی نغمہ شام کی چھائوں سا۔۔۔ ذرا ان پرندوں سے پوچھنا یہ کلام کس کا کلام ہے۔
٭ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر جرمن فوج کو فرانس خالی کرنے کا حکم ملا تو جرمن کمانڈنٹ نے افسروں کو جمع کر کے کہا: ’’ہم نازی جنگ ہار چُکے ہیں، فرانس ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ شاید اگلے 50 برس ہم دوبارہ فرانس میں داخل نہ ہوسکیں۔ میرا حکم ہے کہ پیرس کے عجائب گھروں، نوادرات سے بھرے نمائش گھروں اور ثقافت سے مالا مال ہنر کدوں سے جو کچھ سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لو۔ جب فرانسیسی اس شہر کا اقتدار سنبھالیں تو انہیں جلے ہوئے پیرس کے علاہ کچھ نہ ملے‘‘۔ جنرل کا حکم تھا سب افسر عجائب گھروں پر ٹوٹ پڑے اور اربوں ڈالرز کے نوادرات اُٹھا لائے۔ اُن میں ڈوئچی کی مونا لیزا تھی، وین گوہ کی تصویریں، وینس ڈی ملو کا مرمریں مجسمہ غرض کہ کچھ نہ چھوڑا۔ جب عجائب گھر خالی ہو گئے تو جنرل نے سب نوادرات ایک ٹرین پر رکھے اور ٹرین کو جرمنی لے جانے کا حکم دیا۔ ٹریں روانہ تو ہو گئی لیکن شہر سے باہر نکلتے ہی اس کا انجن خراب ہو گیا۔ انجینئر آئے انجن ٹھیک کیا اور ٹرین پھر روانہ ہو گئی لیکن 10 کلومیٹر طے کرنے بعد اس کے پہیے جام ہو گئے۔ انجینئر آئے، مسئلہ ٹھیک کیا اور ٹرین پھر روانہ ہو گئی، لیکن چند کلومیٹر بعد بوائلر پھٹ گیا، انجینئر آئے بوائلر مرمت ہوا اور ٹرین پھر چل پڑی۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ پریشر بنانے والے پسٹن جواب دے گئے۔ انجینئر آئے پسٹن مرمت ہوئے اور ٹرین روانہ ہوئی… ٹرین خراب ہوتی رہی اور جرمن انجینئر اسے ٹھیک کرتے رہے یہاں تک کہ فرانس کا اقتدار فرانسیسیوں نے سنبھال لیا اور ٹرین ابھی فرانس کی حد ہی میں رہی۔ ٹرین کے ڈرائیور کو پیغام ملا ’’موسیو! بہت شکریہ! لیکن اب ٹرین جرمنی نہیں واپس پیرس آئے گی‘‘۔ ڈرائیور نے مکے ہوا میں لہرائے اور واپس پیرس روانہ ہو گیا۔ جب وہ پیرس پہنچا تو فرانس کی ساری لیڈر شپ اس کے استقبال کے لیے کھڑی تھی، ڈرائیور پر گُل پاشی کی گئی پھر اس کے ہاتھ میں مائیک دے دیا گیا، ڈرائیور بولا: ’’جرمن گدھوں نے نوادرات تو ٹرین میں بھر دیے لیکن یہ بھول گئے کہ ڈرائیور فرانسیسی ہے اور اگر ڈرائیور نہ چاہے تو گاڑی کبھی منزل پر نہیں پہنچ سکتی‘‘۔
اور اب کالم: 20مئی 2020 بلوچستان میں دہشت گردی کے 2واقعات میں پاک فوج کے
7جوان شہید ہوگئے۔ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ مچھ میں گزشتہ رات فرنٹیئر کور (ایف سی) کی گاڑی کو ریمورٹ کنٹرول بم کے ذریعے اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ بیس کیمپ سے معمول کی پٹرولنگ کے بعد واپسی آرہی تھی۔ اس حملے میں جونیر کمیشنڈ آفیسر اور ایک سولین ڈرائیور سمیت 6اہلکار شہید ہوئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دوسرے واقعہ پاک ایران سرحد کے قریب کیچ کے علاقے میں مند کے قریب پیش آیا، جہاں فائرنگ کے تبادلے میں ایک سپاہی امداد علی نے جام شہادت نوش کیا۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے ان واقعات میں بھارت بھی ملوث ہو سکتا ہے، افغان انٹیلی جنس بھی اور ایران بھی۔ ایرانی بلوچستان میں شورش کا الزام ایران پاکستان پر لگاتا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ خیال تقویت پاچکا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گرد ایران سے آتے ہیں۔ تاہم دس دن میں ان دو حملوں میں بھارت کے ملوث ہونے کا امکان سو فی صد ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر بھارت کنٹرول لائن پر دو تین پاکستانی شہریوں کو گولہ باری کا نشانہ بناتا ہے۔ بھارت کی دفاعی اور خارجہ پالیسی کی بنیاد پاکستان دشمنی نہیں پاکستان کے وجود کا خاتمے پر ہے۔ اس بیانیے کو نریندر مودی سے منسوب کیا جاتا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ نہرو کے وقت سے یہ ہر بھارتی حکمران کی ترجیح رہا ہے۔ اس ماہ کی دس تاریخ کو بظاہر جموں وکشمیر کی صورتحال پر بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے پانچ گھنٹے طویل اجلاس کی صدارت کی جس میں کشمیر کی حالیہ جدوجہد آزادی کو 5اگست 2019 کے تناظر میں پا کستان کے عسکری اداروں کی پشت پناہی کی وجہ قرار دیا گیا۔ بھارت کشمیر کا جواب بلوچستان میں دینا چاہتا
ہے۔ دو برس پہلے را کے افسران کو آگاہ کرتے ہوئے اجیت دوول نے کہا تھا کہ پاکستانی طالبان کی مدد سے بلوچستان کو پاکستان سے الگ کردیا جائے گا۔ بھارت نے پاکستان کی سرحدوں کے گرد اپنی افواج اس منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلا رکھی ہیںکہ بوقت ضرورت پاکستان پر آسانی سے حملہ کیا جاسکے۔
سرحدوں کے دفاع کے بعد جو چیز کسی بھی ملک کی آزادی کو یقینی بناتی ہے وہ معیشت ہے۔ معیشت کے حوالے سے پچھلے دنوں ایک حیرت انگیز انکشاف سامنے آیا۔ گزشتہ برس 2019 میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستانی معیشت کی شرح نمو یعنی جی ڈی پی 3.3 ہے۔ اس وقت معیشت کی ازسر نو بحالی اور استحکام کے بلند آہنگ دعوے کیے جا رہے تھے حالانکہ مسلم لیگ ن کے دور میں یہ شرح 5.8 یا 5.9 فی صد تھی۔ جب کہ 2013 میں یہ شرح نمو 3.68 فی صد تھی۔ یہ ترقی سیاسی بے یقینی اور دھرنوں کے تواتر کے باوجود تھی۔ اندرون وبیرون ملک عالمی ادارے اگلے برسوں میں جس میں مزید ترقی کے روشن امکان دیکھ رہے تھے۔ عمران خان کے دور میں معیشت جس تیزی سے زوال پزیر ہوئی تو 2019 میں جی ڈی پی 3.3فی صد کو بھی عظیم کامیابی سمجھا جارہا تھا کہ چلیے جی ڈی پی کی دو ڈھائی فی صد کی قربانی دے کر ایک کرپٹ حکومت سے نجات ملی۔ اب انکشاف کیا گیا ہے اور حکومت کی طرف سے کیا گیا ہے، دل تھام کر سنیے کہ 2019 کے جی ڈی پی کے حوالے سے حکومت نے جھوٹ بولا تھا۔ درحقیقت شرح نمو یعنی جی ڈی پی 1.9فی صد تھی۔ یعنی عمران خان کے دو برسوں میں جی ڈی پی چار فی صد نیچے آئی ہے۔ اس صورت حال میں ملک کی ترقی تو کجا معمولات زندگی برقرار رکھنا مشکل ہو جاتے ہیں۔ لگی بندھی نو کریاں ختم ہوجاتی ہیں، کارخانے بند ہونے کے نزدیک پہنچ جاتے ہیں
غرض معاشی اعتبار سے پورا ملک لرزنے لگتا ہے۔ جس کا اہل پاکستان نے مشاہدہ بھی کیا اور بھگت بھی رہے ہیں۔ اس جھوٹ کے باوجود، اس تنزلی کے باوجود کہیں کسی بھی سمت سے کوئی شور نہیں حالانکہ نواز شریف کے دور میں 5.8فی صد جی ڈی پی کے باوجود ملک میں ہنگامے برپا کرائے گئے تھے کہ معیشت تباہ ہورہی ہے، ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ اگر جلد ہی اس کرپٹ حکومت سے نجات حاصل نہ کی گئی تو ملک کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
سوال یہ ہے کہ دفاع سے لے کر معیشت تک پاکستان کی اس بربادی کا ذمے دار کون ہے۔ دوسری جنگ عظیم کا واقعہ ایک بار پھر پڑھ لیجیے۔ آپ کو وجہ سمجھ آجائے گی۔ اس بربادی کی وجہ پاکستان کی ٹرین کو چلانے والے ڈرائیور ہیں۔ جیسے ہی یہ ٹرین پٹڑی پر رواں ہوتی ہے کچھ رفتار پکڑتی ہے۔ یہ حقیقی مقتدر حکمران کبھی اس کا انجن جام کردیتے ہیں۔ کبھی بوائلر پھاڑ دیتے ہیں اور کبھی پسٹن خراب کردیتے ہیں۔ ابتدا میں جب پاکستان کچھ بھی نہیں تھا ہم بھارت سے مکے لہرا کر بات کرتے تھے۔ آج ہم بھارت کے خوف میں مبتلا ہیں۔ بھارت ہمارے چھ فوجی ماردے یا دس ہمارے پاس جوابی حملہ کرنے کا کوئی تصور نہیں۔ ہماری دفاعی پالیسیوں میں بزدلی راہ پا گئی۔ بھارت ہمارے خوف سے آگاہ ہوگیا ہے سو آج مودی سے بڑھ کر کوئی بہادر نہیں اور پاکستان سے بڑھ کر کوئی بزدل نہیں۔ معیشت کے حوالے سے دیکھیے تو مقتدر دفاعی حلقوں سے کون پوچھے کہ حضور آپ نے کس حالت میں پاکستان کی ٹرین کو لیا تھا اور اب اسے کہاں پہنچادیا ہے اور اب اگلے تین برسوں میں آپ کا منتخب ڈرائیور اس ٹرین کا کیا حشر کرے گا۔ آج کا کالم خاصا پریشان کن ہوگیا ہے۔ ریلیکس ہونے کے لیے بشیر بدر کی غزل دوبارہ پڑھ لیجیے۔