محمد انور
پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن (پی آئی اے) کا ایک اور مسافر بردار طیارہ 22 مئی کو کراچی کے گنجان آباد علاقے ماڈل کالونی میں گر کر تباہ ہوگیا۔ اس تازہ حادثے میں 97 افراد جاں بحق ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح اس حادثے کی بھی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں اور ہمیشہ کی طرح ان تحقیقات سے بھی کوئی غیر معمولی نتائج اخذ نہیں کیے جاسکیں گے اور آئندہ ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے نئے وعدے اور دعوے کرکے پھر سب ہی خاموش بیٹھ جائیں گے۔ نئے کسی سانحے تک قوم بھی اس واقعہ کو بھلا دے گی۔
پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں 83 ائر کرافٹ حادثات رونما ہوچکے ہیں۔ ان میں پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز کے طیاروں کو 21 حادثات پیش آئے ہیں تاہم پاکستان ائر فورس کے طیاروں کو مجموعی طور پر 24 حادثے پیش آئے ہیں۔ مختلف ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق 14 اگست 1947 سے 22 مئی 2020 تک پاکستان کی فضائی حدود میں فضائی حادثات کی ایک لمبی تاریخ ہے اور اس میں سویلین اور فوجی طیارے دونوں شامل ہیں۔ رواں سال کا پہلا فضائی حادثہ سات جنوری کو اس وقت پیش آیا تھا جب پاکستان فضائیہ کا ایک طیارہ معمول کی پرواز کے دوران پنجاب کے شہر میانوالی کے قریب گِر کر تباہ ہوا تھا۔ اس حادثے میں طیارے پر سوار دونوں پائلٹس ہلاک ہو گئے تھے۔ دوسرا واقعہ 11 مارچ 2020 کو پاکستان فضائیہ کا ایک ایف 16 طیارہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شکرپڑیاں کے قریب گِر کر تباہ ہوا تھا۔ ایف 16 طیارہ 23 مارچ کو ہونے والی یومِ پاکستان پریڈ کی مناسبت سے ریہرسل میں مصروف تھا۔ اس حادثے میں طیارے پر سوار پائلٹ ہلاک ہوا تھا۔ 2019 میں بڑا فضائی حادثہ 30 جولائی کو پیش آیا تھا۔ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب آرمی ایوی ایشن کا ایک چھوٹا طیارہ پنجاب کے شہر راولپنڈی کی حدود میں گر کر تباہ ہو گیا جس کے نیتجے میں پانچ فوجیوں سمیت کم از کم 19 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ پاکستانی فوج کا بیچ کرافٹ سی کنگ 350 طیارہ تھا۔ 2019 کا یہ دوسرا حادثہ تھا پہلا حادثہ جنوری میں بلوچستان کے علاقے مستونگ کے مقام پر ہوا تھا۔ اس حادثے میں پاک فضائیہ کا ایف سیون پی جی گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ فروری 2017 میں فیصل آباد کے مقام پر شاہین ائر فلائنگ ٹریننگ اسکول کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا۔ جس میں دونوں پائلٹ ہلاک ہو گئے تھے۔ مئی 2017 میں پاکستانی فضائیہ کا ایک جنگی طیارہ معمول کی تربیتی پرواز کے دوران میانوالی کے مقام پر گر کر تباہ ہوا جس میں طیارے کا پائلٹ ہلاک ہو گیا۔ طیارہ سبزہ زار علاقے کے قریب تباہ ہوا جس کی وجہ طیارے میں فنی خرابی بتائی گئی۔ اگست 2017 میں سرگودھا کے مقام پر پاک فضائیہ کا ایک طیارہ تباہ ہوا تھا تاہم اس حادثے میں پائلٹ طیارے سے بحفاظت باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ دسمبر 2016 میں صوبہ خیبر پختون خوا کے شہر چترال سے اسلام آباد آنے والا پی آئی اے کا ایک جہاز حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ حادثے کا شکار ہونے والے مسافر طیارے میں 42 مسافر اور عملے کے پانچ اراکین سوار تھے۔
20 اپریل 2012 کو نجی ائر لائن بھوجا ائر کی پرواز لوئی بھیر کے قریب گر کر تباہ ہوئی تھی، اس میں 127 افراد سوار تھے۔ 28 نومبر 2010 کو ایک چھوٹا طیارہ کراچی کے قریب گر کر تباہ ہوا تھا اور اس حادثے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستان کی فضائی تاریخ کا سب سے جان لیوا حادثہ بھی اسلام آباد کے قریب 28 جولائی 2010 کو پیش آیا تھا جب نجی ائر لائن ائر بلیو کی پرواز مارگلہ کی پہاڑیوں سے جا ٹکرائی تھی۔ اس طیارے میں 152 افراد سوار تھے۔ اس سے قبل دس جولائی 2006 کو پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز کا فوکر طیارہ ملتان ائر پورٹ سے اڑان بھرنے کے کچھ دیر بعد ہی گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اْس میں 45 افراد ہلاک ہوئے جن میں ہائی کورٹ کے دو جج، فوج کے دو بریگیڈیئر اور بہا الدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی شامل تھے۔ ملتان کا فوکر طیارے کا حادثہ پی آئی اے کی تاریخ کا اندرونِ ملک سب سے جان لیوا حادثہ تھا جس کے بعد فوکر طیاروں کا استعمال بند کر دیا گیا تھا۔
پاکستان میں اب تک فوجی مسافر طیاروں کے دس حادثے پیش آئے ہیں۔ آخری حادثہ پاکستان ائر فورس کے فوکر طیارے کا تھا جو 20 فروری 2003 کو پیش آیا۔ کوہاٹ کے قریب گر کر تباہ ہونے والے اس طیارے میں اس وقت کے پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ائر چیف مارشل مصحف علی میر سمیت 17 افسران ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستانی فضائیہ کے لیے اب تک مال بردار طیارے ہرکولیس سی ون تھرٹی سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوئے ہیں جن میں خصوصی کیپسول رکھ کر مسافروں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہرکولیس سی ون تھرٹی کے چار حادثوں میں سے 17 اگست 1988 کو بہاولپور کے قریب پیش آنے والا حادثہ قابلِ ذکر ہے جو اس وقت کے صدر اور فوجی آمر جنرل ضیا الحق سمیت 30 اہم شخصیات اور فوجی افسران کی موت کا سبب بنا۔ پاکستانی سرزمین پر گزشتہ 63 برس میں غیر ملکی ہوائی کمپنیوں کے نو فوجی اور غیر فوجی مسافر بردار طیاروں کو حادثے پیش آئے۔ ان میں سے تین حادثوں میں افغانستان کے مسافر بردار طیارے گر کر تباہ ہوئے۔ 13 جنوری 1998 کو افغان ہوائی کمپنی آریانا ائر کا مسافر طیارہ خوڑک پہاڑی سلسلے میں توبہ اچکزئی کے علاقے میں گرا۔ اس حادثے میں 51 مسافر ہلاک ہوئے اور یہ 28 جولائی 2010 سے پہلے تک پاکستانی سرزمین پر سب سے زیادہ جان لیوا فضائی حادثہ تھا۔ نو جنوری 2002 کو امریکی ائر فورس کا ہرکولیس سی ون تھرٹی بلوچستان کی شمسی ائر بیس کے قریب گر کر تباہ ہوا اور سات مسافروں کی موت کا سبب بنا۔ یہ پاکستان میں کسی غیر ملکی طیارے کا آخری حادثہ تھا۔ 24 فروری 2003 کو ایدھی ائر ایمبولینس کا سیسنا 402 طیارہ کراچی کے قریب آٹھ مسافروں کی موت کا سبب بنا۔
دیکھنے میں آرہا ہے کہ ملک میں ہوائی جہازوں کے حادثات کو بھی ایک عام واقعہ سمجھ کر وقت کے ساتھ فائلوں میں دبادیا جاتا ہے۔ حد یہ بھی ہے کہ کسی بھی حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ سے قوم کو آگاہ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان کی رپورٹس ملک کے منتخب ایوانوں میں پیش کی جاتی ہیں۔ نتیجے میں مستقبل میں اس طرح کے حادثات و واقعات سے بچاؤ کے لیے کوئی اقدامات ممکن ہو پاتے ہیں۔