شوگر ملز ایسوسی ایشن یا سب سے منظم جماعت؟

239

ملک میں موجودہ دور میں چینی کی قیمتوں میں اضافے سے شروع ہونے والا بحران ایک سیاسی بھونچال کی شکل میں ڈھلتا نظر آرہا ہے۔ اس بحران نے پہلا سیاسی دھماکا یہ کیا کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے دست راست جہانگیر ترین کے تعلقات کی فصیل میں گہری دراڑ ڈالدی۔ یہ دراڑ بڑھتی جا رہی ہے اور اس میں ایک فالٹ لائن بن کر سیاسی بھونچال برپا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ دوسری فالٹ لائن یہ ہوئی کہ حکومت اور اس کی اتحادی مسلم لیگ ق میں بھی دوری پیدا ہوگئی۔ جہانگیر ترین کی ناراضی اور چودھری برادران کی دوری مل جائے تو حکومت ڈگمگا سکتی ہے۔ اس پر سونے پر سہاگہ شوگر اسیکنڈل کے دوسرے کردار شریف اور زرداری گروپ بھی اس میں مل جائیں تو سیاست کا منظر ہی بدل سکتا ہے۔ چینی بحران کے معاملے پر قائم کمیٹی کی فرانزک رپورٹ سامنے آتے ہی سیاست کا ایک اور پنڈورہ باکس کھل گیا ہے۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر واجد ضیا ایک نڈر اور دیانت دار افسر کے طور پر اپنی شناخت قائم کرچکے ہیں اسی لیے عمران خان نے بھڑوں کے اس چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے لیے واجد ضیا کا انتخاب کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے قوم سے وعدہ کیا کہ کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے گی اور قوم سے کچھ بھی چھپایا نہیں جائے گا۔ عمران خان کے اس وعدے کا ایک پس منظر تھا کیونکہ روز اول ہی سے چینی بحران میں عمران خان کے دست راست جہانگیر ترین کا نام آرہا تھا اور لامحالہ شکوک وشبہات کے ڈانڈے عمران خان سے جا ملتے تھے۔ عمران خان اپنی ساکھ کے تحفظ کے لیے ہر حد پار کرنے کی پہچان رکھتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر روز اول ہی یہ وعدہ کیا تھا کہ کہ وہ چینی بحران کے ذمے داروں اور کرداروں کو عوام کے سامنے لائیں گے۔
چینی بحران کے بعد ہی عمران خان نے جہانگیر ترین سے فاصلہ پیدا کرنا شروع کیا۔ حالانکہ عمومی تاثر یہی تھا کہ عمران خان کو وزیر اعظم بنانے میں جہانگیر ترین کی سیاسی حکمت کاری اور وسائل کا گہرا دخل رہا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں یہ جہانگیر ترین ہی تھے جنہوں نے اپنے ذاتی جہاز میں پنجاب کے طاقتور گھرانوں کے منتخب ارکان کو گھیر گھار کر پنجاب میں حکومت بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ حکومت سازی میں جہانگیر ترین کا یہی کردار تھا کہ انہیں عمران خان کا سپر نہیں تو ڈی فیکٹو وزیر اعظم ضرور سمجھا جا رہا تھا مگر وہ سپر یا ڈی فیکٹو تو کیا نائب وزیر اعظم کے طور پر اپنا سیاسی وجود برقرار نہ رکھ سکے۔ وزیر اعظم ہائوس کا دفتر ان کا منتظر ہی رہا کیونکہ وہ نگاہ التفات سے محروم ہو کر رہ گئے تھے۔ اب جہانگیر ترین نے چپ کا روزہ توڑتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں نوازشریف نااہلی کے فیصلے کو بیلنس کرنے کے لیے نااہل قراردیا گیا۔ گویاکہ وہ اپنے قربانی کا بکرا بن جانے کا اعتراف کر رہے ہیں۔ انہیں اس انجام کا شکار کس نے کیا؟ ظاہر ہے ان کی نااہلی کا فیصلہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے دیا تھا اور ان کا روئے سخن بھی عدلیہ ہی کی جانب ہو سکتا ہے۔
واجد ضیاء نے پاناما کیس کی طرح ہر قسم کے دبائو سے آزاد ہو کر چینی بحران کی تحقیقات کا آغازکیا۔ رپورٹ میں تاخیر بھی ہوتی چلی گئی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حالیہ بحران کو بنیاد بنا کر واجد ضیاء چینی بحرانوں، سبسڈیوں اور قیمتوں میں اضافے کی ڈور کا سرا پکڑنا چاہتے تھے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے چینی کے کاروباری افراد کو ’’شوگر مافیا‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معاملہ سیدھا سادہ صنعت کاری کا معاملہ نہیں رہا بلکہ ملک کے طاقتور سیاسی خاندانوں نے اس صنعت کا رخ کر لیا ہے اور یوں سیاست کے میدان میں دست وگریباں کردار شوگر مافیا کے پلیٹ پر باہم شیر وشکر دکھائی دینے لگے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق اور پی ٹی آئی غرضیکہ کسی نہ کسی دور اور کسی نہ کسی پر ایک دوسرے کے کٹر مخالف نظر آنے والے سیاسی گھرانے کم از کم ایک جماعت کے پلیٹ فارم پر اکٹھے دکھائی دینے لگے اور اس جماعت کا نام شوگر ملز ایسوسی ایشن تھا۔ ظاہر ہے کہ سیاسی لوگوں کی اس شعبے میں آمد نے مفادات کے ٹکرائو کو جنم دیا۔ ایک سیاست دان جب حکومت میں آتا ہے تو فطری طور اس کے اندر کا کاروباری اسے کاروبار کی جانب نظر کرم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ واجد ضیاء
نے ماضی کی حکومتوں اور چینی کے کھیل سے ڈور کا سرا پکڑا تو تحریک انصاف حکومت تک جا پہنچے۔ اندازہ ہوا کہ چھ بڑے سیاسی گھرانوں کے گروپوں نے چینی کے کاروبار میں فراڈ سے کام لیا ہے۔آصف زرداری اور شریف خاندان کی حد تک تو رپورٹ کا افشاء یا اخفا بے ضرر ہے کیونکہ دونوں جماعتیں حکومت مخالف ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ جماعتیں حکومت پر سیاسی انتقام کا الزام عائد کر سکتی ہیں اور وہ ایسا کر بھی رہی ہیں مگر حکومت کے وجود کے لیے زہر قاتل اس کے تین اتحادیوں جہانگیر ترین، چودھری برادران اور خسرو بختیار گروپ کے نام ہیں۔ آخر الذکر دو گروپ حکومت کے اتحادی ہیں تو جہانگیر ترین حکومت کا حصہ ہیں اور کئی ایم این ایز اور ایم پی ایز ان کی مظلومیت کے حق میں بول چکے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی کلچر میں حکومت لہر کے اُلٹے رخ چل کر کسی معتوب شخص کی حمایت میں کھڑا ہوا کچھ عجیب ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے جہانگیر ترین کمزور انسان نہیں۔ اس کے باوجود عمران خان نے کسی مصلحت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے چینی بحران کی رپورٹ کم ازکم منظر عام پر لانے کا حوصلہ تو کیا۔ اب اس کے نتائج کیا برآمد ہوتے ہیں یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ قانون اپنا کام کس طرح کرتا ہے ابھی چشم فلک کو یہ منظر دیکھنا بھی باقی ہے۔ رپورٹ منظر عام پر آگئی اب اس کا کچھ نتیجہ نکلنا بھی ہے یا نہیں اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہا نہیں کہا جا سکتا۔ اچھا ہو کہ اگر قانون اپنا کام کرتے ہوئے آگے بڑھ جائے۔ جن لوگوں پر الزام ہے ان کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے عدلیہ کا دروازہ کھلا ہے۔