کوویڈ۔19 اور میڈیا کی ذہنی صحت کو لاحق خطرات

281

محمد سمیع گوہر
کوویڈ۔ 2019 کی وبائی بیماری سے قبل بھی حقائق کو سامنے لانے پر میڈیا سخت دبائو کا شکار تھا مگر اب اس وائرس کے نتیجہ میں دنیا بھر میں پیش آنے والی ہولناک صورتحال کے بعد پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے نیوز روم پر صحیح خبریں عوام تک پہنچانے پر دبائو میں مزید اضافہ ہوا ہے، جبکہ وہ اب بھی بہت سے پرانے صحافتی طریقۂ کار کو اپنائے ہوئے ہے جس کی وجہ سے میڈیا کی ذہنی صحت کو لاحق خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ قابل اعتماد خبروں کی اہمیت کورونا وائرس کی بنا پر پیدا ہونے والے بحران کے دوران اور بھی زیادہ بڑھ چکی ہے اور چونکہ کوویڈ 19سے پھیلنے والی بیماری سے صحافیوں کو بھی شدید خطرات کا سامنا کرکے کام کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے ایک طرف تو میڈیا کی صنعت کو آگے بڑھنے کا موقع ملا ہے تو دوسری جانب ان کے کام کرنے کے انداز میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کی ذہنی صحت پر جو تنائو پڑا ہے اسے کم کیا جانا چاہیے۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ کوویڈ 19 کے بحران سے قبل بھی پاکستان میں میڈیا سخت دبائو میں تھا اور بہت سے میڈیا ہاوسز تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے تھے، حکمرانوں کے نزدیک بریکنگ نیوز کا چکر انتہائی پریشان کن ہوگیا ہے، اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے، نیوز روم کے بجٹ کو کم کرنے اور صحافیوں کی برطرفیوں سے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور سب سے بڑھ کر عوام میں بھی میڈیا پر اعتماد میں کمی آرہی تھی۔ دوسری جانب کورونا وائرس سے پھیلنے والی وبائی بیماری نے ان مشکلات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے پہلے سے بھی زیادہ غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ مسلسل لاک ڈاون کی بنا پر اب زیادہ تر صحافی گھر بیٹھ گئے ہیں یا گھر بیٹھے کام کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، ساتھیوں، رابطوں یا مضامین ملنے میں کمی کا مسئلہ بھی درپیش ہوگیا ہے۔ کچھ صحافی اپنی ذمے داریوں سے مغلوب ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ ہر وقت اور ممکنہ طور پر اپنی زندگی کا تحفظ اور تیزی سے بدلتے ہوئے کوویڈ 19 کے بحران کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی کوشش پر مجبور ہوجاتے ہیں اور ان حالات میں تو صحافی اپنی ملازمتوں تک سے محروم ہو جاتے ہیں۔
ان حالات میں میڈیا انڈسٹری کو جو بات یقینی بنانے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ صحافیوں کی ذہنی صحت اور تندرستی کے لیے ہرممکن کوشش کی جائے۔ کینیڈا کے ایک ماہر نفسیات فین اسٹائن کے مطابق یہ بحران دراصل انفرادی ردّعمل کا انتظام کرنے اور اس وقت صحافیوں کے اہم کام کی توثیق کرنے اور نیوز مینجمنٹ کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دے رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت جن مسائل پر قابو نہیں پایا جاسکتا ہے ان پر زیادہ جذباتی ہونے کی ضروت نہیں ہے کیونکہ یہ بات تباہ کن بھی ہوسکتی ہے۔ اس وقت زیادہ وسیع پیمانے پر صحت مند معمول کو برقرار رکھنے، نیند پوری کرنے، جسم کو مستحکم رکھنے والی غذا اچھی طرح سے کھانے اور ورزش چاہے گھر پر ہی کی جائے کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ سماجی دوری کا خیال رکھتے ہوئے رابطے رکھنا بھی ضروری ہے، زیادہ تر لوگ اس مشورے پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔ صحافیوں کو چاہیے کہ رات کو سوتے وقت اس خبر سے لاتعلق ہو جائیں جو انہوں نے آج فائل کی تھی، خاص طور پر یہ ان لوگوں کے لیے مشکل بات ہے جن کا کام اہم خبر دینا ہوتا ہے۔ کلیدی طور پر کسی کے پیشہ ورانہ کردار اور ذمے داریوں کو واضح کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اس میں شامل یہ بھی ہوتا ہے کہ بات کہاں ختم ہوئی ہے، ایسا کرنے سے صحافی کو اخلاقی طور پر چوٹ بھی پہنچتی ہے۔ یہ وہ تنائو ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی فردان اقدار کے منافی ہونے والے کاموں کے روکنے کا معاہدہ کرتا ہے، اس کا ارتکاب کرتا ہے یا ناکام ہوجاتا ہے اگر یہ غیر منظم اور علاج کیے جانے کی صورت میں یہ شدید جذباتی تکلیف کا باعث ہوسکتی ہے۔
موجودہ حالات میں صحافیوں اور میڈیا ہاوسز کے مالکان کے درمیان براہ راست بہتر تعلقات اور تعاون جاری رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ بی بی سی، اے ایف پی اور رائٹر جو بہت بڑے عالمی میڈیا ادارے ہیں ان کو بھی متنوع ضروریات کے ساتھ دنیا بھر میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔ میڈیا کے یہ تین بڑے عالمی ادارے جنہوں نے دماغی صحت کو کوویڈ 19 ردّعمل منصوبوں کا مرکز بنالیا ہے، ان کی حکمت عملی سے سبق سیکھنے حاصل کرنے کی اہم مثالیں مواصلات اور افہام و تفہیم کی اہمیت ہیں۔ ہم جو کچھ کررہے ہیں اس کے بارے میں مستقل رابطے ہوتے رہتے ہیں اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ ہر شخص ان پیغامات کو دیکھ رہا ہے کہ یہ اہم نیوز ایجنسیاں ہیں۔ ہمارا ایک مشن ہے، لیکن پہلی بات جو سب سے اہم وہ یہ کہ اب ہم اپنے لوگوں کی صحت اور حفاظت کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اسی طرح اٹلانٹا کے کارٹر سینٹر میں جرنلزم فیلو شپ کے سینئر ایسوسی ایٹ ڈائیریکٹر جو میڈیا مینیجرز کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ نیوز کی ٹیموں کے لیے یہ یقینی بنائیں کہ ان کی بھلائی، انوکھے خاندانی حالات اور معاشرہ ان مشکل وقتوں میں اہم ہیں۔ جیسا کہ کینیڈا کے ماہر نفسیات فین اسٹائین نے بھی بتایا ہے کہ یہ بہت غیر معمولی بات ہوگی کہ اگر ہم موجودہ ہنگامی صورتحال کے دوران کسی طرح کی بے چینی نہ محسوس کریں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب نیوز ایڈیٹر کو جب بھی ممکن ہو اسے مشکل اسائنمنٹ کو گھمانا چاہیے اور صحافیوں کے اہم کاموں کی توثیق کرنی چاہیے اور انہیں اپنے عملہ کو اس امر سے بھی آگاہ رکھنا چاہیے۔ بشمول اس کے بارے میں کہ ان کے لیے کیا وسائل دستیاب ہیں اور رہنما اصولوں یا پالیسی میں کیا تبدیلی ہوئی ہے۔ ان کو باقاعدگی کے ساتھ جانچ پڑتال کرنی چاہیے اور اپنے عملہ کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ذاتی طور پر کسی بھی سوال، خدشات یا تاثرات کا اشتراک کرنے کی ترغیب دیں اگر وہ ان کا انتخاب کرتے ہیں۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے روز آرچرڈ کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ بھی دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب لوگ جسمانی تنہائی اور ڈیجیٹل ہائپر کنکشن کے متضاد تجربات کا مقابلہ کررہے ہوں۔ نیوز مینیجر کو اپنی ذہنی صحت کو یقینی بنانا چاہیے، ان سب کو اعتماد اور معاشرہ کے ایسے جذبہ کو فروغ دینے میں مدد فراہم کرنی چاہیے جو صحافیوں کو اپنے اوپر آنے والے دبائو کو مزید بڑھائے بغیر تنہا یا بے محل محسوس کرنے سے روکتے ہیں۔ کامیابی کو یقینی بنانے میں مدد کے لیے میڈیا ہاوسز کے مالکان کو دور دراز کے علاقوں میں صحافیوں کو کوچنگ کی سہولت فراہم کرنی چاہیے اور ساتھ ہی وہ ٹولز بھی فراہم کرنے چاہئیں جن کی انہیں اپنی ٹیموں کو موثر انداز میں سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔