کہا جاتا ہے کہ خبر کا انٹرو ہی پوری صحافت پر بھاری ہوتا ہے جس نے انٹرو لکھنا سیکھ لیا وہ صحافت بھی سیکھ گیا، آج اپنے پیارے دوست، مہربان، مخلص انسان ناصر علی زیدی پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں اور انٹرو نہیں بن رہا، ناصر زیدی سے تعلق 1979 میں اس وقت قائم ہوا جب اسلامی جمعیت طلبہ جوائن کی، اس زمانے کے ساتھیوں میں اگر کسی کو اردو بولنے اور لکھنے پر ملکہ حاصل تھا تو وہ ناصر زیدی ہی تھے، وہ جمعیت سے تعلق قائم ہونے سے لے کر تعلیم مکمل ہوجانے تک ایک ایسے مثالی کارکن تھے کہ جن میں اخلاص، ایثار، احسان کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا، ایک مکمل درویش انسان، فیصل آباد جیسے پنجابی ماحول کے شہر میں سید ناصر علی زیدی کی اردو بہت بھلی معلوم ہوتی تھی اور کبھی کبھی تو اجنبی سی بھی لگتی تھی، دو روز قبل ان کے انتقال کی خبر ملی، یقین نہیں آیا کہ وہ اب ہم میں نہیں رہے لیکن اطلاع دینے والی شخصیت بہت معتبر تھی، لہٰذا یقین کرنا پڑا، بہر حال تفصیلات کے لیے طاہر ایوب اور عبدالمجید سے رابطہ کیا، تو کچھ تفصیلات ملیں، اظہر اقبال حسن، جنہیں ہم کوریاں والے کہتے تھے، دوسرے اظہر قبال حسن زرعی یونیورسٹی والے تھے، اظہر اقبال حسن کے ساتھ مرحوم کی یادیں تازہ ہوئیں۔
ناصر زیدی ہم سب کے لیے یکساں احترام کے قابل تھے، حق مغفرت کرے، مرحوم عجب آزاد منش انسان تھے، ایک کامل ولی تھے، ان میں غرور تھا نہ احساس کمتری، ہر وقت دوسروں کی مدد کرنا اور حتیٰ کہ تعلیم کے معاملے میں رہنمائی کرنا بھی ان پر ختم تھا، جگت بھی اردو میں کرتے، کسی کو سمجھ میں آتی اور کسی کو نہ آتی، ان پر جتنا بھی لکھا جائے اور ان کی شخصیت پر بولا جائے کم ہے، اہل فیصل آباد میں تعزیتی ریفرنس کی عادت یا ماحول نہیں ہے، ناصر زیدی کے لیے ضرور کوئی تعزیتی ریفرنس ہونا چاہیے۔ چلیے اسی سے اس کام کا آغاز ہوجائے تو بہتر ہوگا۔ اسلام آباد میں ضرور ان سے متعلق ریفرنس رکھیں گے، اگرچہ اسلام آباد بھی اپنے سماجی مزاج کے اعتبار سے ایک یکتا شہر ہے، ہمسایہ اپنے دوسرے ہمسایے کا واقف نہیں ہے۔ دن دیہاڑے اگر کوئی اجنبی گھر میں داخل ہوکر سامان وین پر لاد کر لے جارہا ہو تو ہمسایے دیکھتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارا ہمسایہ کسی دوسری گھر میں شفٹ ہورہا ہے۔
معراج الحق صدیقی میرے ہمسایے ہیں، بالکل ساتھ والا گھر، دیوار سے دیوار جڑی ہوئی ہے ان سے میری ملاقات کوئی چار پانچ سال کے بعد ہوئی تو ہم دونوں کو معلوم کہ ہم ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں، ان سے ’’واقفیت‘‘ ہوجانے کے بعد مشتاق احمد، شفقت محمود قیصر، ارشاد گوندل، حافظ عطا الرحمن، ڈاکٹر طاہر اعظم اور محمد یاسین (محمد آباد والے) سے رابطہ ہوا، یہ سب ناصر زیدی کے ہم عصر کارکن ہیں، مرحوم سے اَنگنت ملاقاتیں رہی ہیں، بے شمار دلچسپ و یادگار واقعات ہیں، بیان کرنا چاہیں تو کتاب لکھی جاسکتی ہے واقعات تو کافی ہیں اور لکھنے کا یارا تو ہے مگر حوصلہ نہیں ہے، اظہر اقبال حسن نے ان کی تازہ فوٹو بھیجی ہے مگر ذہن میں ابھی تک ان کی وہی تصویر ہے جو چالیس سال پہلے تھی، وہ ایک بڑی روحانی شخصیت تھے کامل اصلیت تو یہ ہے کہ ڈاکٹر ناصر واقعی بڑے آدمی تھے، ہمیشہ دلیل کے ساتھ بات کرتے تھے اور دلیل سے ہی جواب قبول کرتے تھے، سماجی رکھ رکھائو اور دینی نظریات میں پختہ تر تھے سچائی اور انسانیت کے بالمقابل وہ ہر چیز کو نیچے کر دیتے، جب بھی دیکھتے کہ کوئی کارکن وقت ضائع کرنے کا عادی بن رہا ہے تو اسے یہی کہتے کہ اللہ کے ولی جس مقصد کے لیے جمعیت میں آئے ہو بہتر ہے کہ وہی کرو، وہ ہر اس کارکن کے لیے شمشیر بے نیام تھے جو دلیل کے بغیر بات کرتا، مرحوم اخوان المسلمون کے بانی شیخ حسن البنا اور مولانا مودودی کے شیدائی تھے۔ حسن البنا بنیادی طور پر ایک اخلاقی مصلح تھے وہ اپنے کردار اور تقاریر سے دوسروں کو متاثر کرتے تھے، ناصر زیدی ان کے نقش قدم پر چلنے میں خوشی محسوس کرتے تھے، ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت واقعی یاد گار ہے۔ رضاء المصطفیٰ کو ان کے انتقال کی اطلاع دی تو ان کی جانب سے وائس میسج آیا، ان کے الفاظ اور مرحوم کے لیے خراج عقیدت کے اظہار نے رلا کر رکھ دیا۔
ناصر زیدی شاید وہ واحد شخصیت تھی، جس کی کبھی کسی کے ساتھ ناراضی نہیں ہوئی تھی، جمعیت کے پورے دور میں انہیں سائیکل پر دیکھا، ان کی سائیکل بہت اسٹائلش تھی، سادہ لباس، کم خوراکی ان کی پہچان، بہت ہی نفیس انسان تھے، فیصل آباد میں ان دنوں ٹکا ٹک مشہور ہوا تھا، اس کے بجائے انہیں امین پور بازار کے دال چاول بہت پسند تھے، یقین جانیے ان کے انتقال پردل بہت افسردہ ہے۔
جو تیرے درد ہیں وہی سب میرے درد ہیں
کہنے کو اپنی اپنی جگہ فرد فرد ہیں
دھندلا گئے ہیں عکس نظر ہے بھنور بھنور
خوابوں میں بھی خیال کے آئینے گرد ہیں
پیشانیوں پہ وقت شکن در شکن نہیں
چہرہ بہ چہرہ لکھے ہوئے دل کے درد ہیں
اک دوسرے کو جان کے پہچانتے نہیں
ہم لوگ سارے ایک قبیلے کے فرد ہیں