طیارہ حادثہ کے شہداء اور سوشل میڈیا

376

22مئی بروز جمعتہ الوداع کراچی میں لینڈنگ سے ایک منٹ قبل طیارہ حادثے کے نتیجے میں 97افراد شہید ہوئے اور دو افراد زندہ بچ گئے۔ اس وقت طیارے کے اندر کیا خوشی اور مسرت کا منظر رہا ہو گا جب پائلٹ نے یہ اعلان کیا ہو گا کہ اب ہم کراچی کی حدود میں داخل ہو گئے ہیں مسافر بیلٹ باندھ لیں تھوڑی دیر میں کراچی ائر پورٹ پر لینڈ کرنے والے ہیں یہ کتنے خوشی کا لمحات ہوتے ہیں جب اپنی منزل پر پہنچنے کا یقین ہوتا ہے اور پھر یہ تصور کہ کون کون ائر پورٹ پر ہمیں receive کرنے آیا ہوگا، یا یہ کہ بس جلد اپنے گھر پہنچ کر گھر والوں کو سرپرائز دیں گے کہ ہم آپ کے ساتھ عید منانے کراچی پہنچ گئے۔ اس وقت لوگ اپنا سامان ٹھیک سے پیک کررہے ہوتے ہیں، اپنے ہینڈ بیگ کی چیزوں کو چیک کررہے ہوتے ہیں، بچوں بھائی بہنوں کے تحفوں کو بھی ایک بار دوبارہ چیک کرتے ہیں کسی خاص تحفے کے بارے میں بچوں یا بھائی بہنوں کی خوشی کا اندازہ لگاتے ہیں کہ وہ اس کو دیکھ کر کتنا خوش ہوگا۔
خوشی کے ایسے ہی جذباتی ماحول میں جب پہلی دفعہ جہاز کا پہیہ کھلے بغیر اس کا نجن رن وے سے ٹکرایا ہوگا تو اسی وقت یہ سارے خوشی کے جذبات اچانک خوف میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور لوگ دعائیں پڑھنے لگتے ہیں کلمے کا ورد شروع ہو جاتا ہے جس کو جو قرآنی آیات یاد ہوتی ہیں وہ پڑھنے لگتا ہے پھر جہاز تین ہزار فٹ کی بلندی پر اوپر پہنچ جاتا ہے اس وقت مسافروں کو کچھ عارضی سکون ملتا ہے اور یہ امید بڑھ جاتی ہے کہ ہم بحفاظت ائر پورٹ پر اتر جائیں گے لیکن دل پھر بھی دھک دھک کررہا ہوتا ہے اور پائلٹ کی طفل تسلی کے باوجود خوف نے مسافروں کے پورے وجود کو اپنی گرفت میں جکڑ لیا ہوتا ہے اس کے بعد اچانک دھماکا ہوتا ہے اور جہاز آبادی میں گر جاتا ہے، جو دو لوگ زندہ بچ گئے اندرونی ماحول کی جو روداد بتاتے ہیں کہ ہر طرف ایک چیخ و پکار ہے بچے اور خواتین پوری قوت سے چلا رہے ہیں کچھ کی زبانوں پر قرآنی آیات اور دعائیں اب بھی جاری ہیں چند لمحوں بعد خاموشی چھا جاتی ہے یہ خاموشی موت کی خاموشی ہوتی ہے۔ لیکن پھر ایک شور بلند ہوتا ہے وہ آبادی کے نوجوانوں اور لوگوں کا ہوتا ہے جو امدادی کام کے حوالے سے وہاں پر آتے ہیں مدد کرنے والوں کی تلاش ایسے لوگوں کی طرف ہوتی ہے جو زخمی ہوں اور انہیں جلد از جلد طبی امداد کے لیے اسپتال روانہ کیا جائے۔
جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے یہ جملہ ہم نہ صرف بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں بلکہ اس کے مظاہر اور مثالیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں 1960 اور 70 کی دہائی کے آخری برسوں میں ٹھیک سے سن مجھے یاد نہیں ہے قاہرہ کے لیے پی آئی اے کی فلائٹ سروس شروع ہوئی تو پی آئی اے والے پہلی فلائٹ میں صحافیوں کو کراچی سے قاہرہ لے گئے اس میں اور بھی اہم شخصیات سوار تھیں 150سے زائد افراد اس فلائٹ میں سوار تھے وہ طیارہ قاہرہ ائر پورٹ پر اترتے ہوئے گر کر تباہ ہو گیا سارے مسافر اس میں شہید ہوگئے صرف ایک شخص زندہ بچا اس وقت اخبارات نے اس کی خبر دیتے ہوئے یہی جملہ لکھا تھا کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ بینک آف پنجاب کے صدر جو اس خوفناک حادثے میں معمولی زخمی ہوئے ہیں ان کے بارے میں یہ آیا ہے کہ انہوں نے بینک کے ملازمین کو نہ صرف بروقت تنخواہ ادا کی بلکہ اسٹیٹ بینک سے لون لے کر ملازمین کو عید بونس بھی دیا پتا نہیں کس کی انہیں دعا لگ گئی ہو۔ جو لوگ اس حادثے میں شہید ہوئے ہیں وہ زیادہ خوش قسمت نکلے ویسے تو ان کے لواحقین کو ساری زندگی کا ایک غم لگ گیا لیکن حادثاتی موت شہادت کی موت کہلاتی ہے اس لیے یہ سب لوگ شہید ہی ہیں سوشل میڈیا پر کچھ لوگ پتا نہیں کیوں یہ لکھ رہے ہیں کہ ان کو شہید کہا جائے اور نہ لکھا جائے۔ ان کے پاس اس کے کیا دلائل ہیں یہ کسی کو نہیں معلوم ایسے ہی بلا وجہ لوگ اپنی خود ساختہ رائے پر اصرار کرتے ہیں۔
راجہ رحمت صاحب کا ماہ رمضان میں انتقال ہوا تھا ہم سب جماعت کے کارکنان نعمان مسجد میں ان کی نماز جنازہ کے لیے جمع ہوئے تو مسجد کے خطیب اور پیش امام مفتی انعام الحق مرحوم نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ ماہ رمضان میں انتقال فرما جاتے ہیں وہ سیدھے جنت جاتے ہیں اور اس پر کئی مستند احادیث ہیں ایک بات یہ بھی آتی ہے کہ جن لوگوں کو موت سے قبل کلمہ پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے وہ بھی ایک کامیاب موت ہوتی ہے۔ طیارہ حادثے کے مسافروں کو تین قسم کی برکتیں حاصل ہوئیں ہیں۔ پہلی تو یہ کی ان سب کی موت ماہ رمضان میں جمعتہ الوداع کے دن ہوئی دوسرے یہ کہ سب لوگوں کو توبہ استغفار کا اور کلمہ طیبہ پڑھنے کا موقع مل گیا اور تیسری یہ کہ حادثاتی موت کو ویسے ہی شہادت کا درجہ مل جاتا ہے۔ ان تین حوالوں سے یہ سب شہید کہے بھی جائیں گے اور لکھے بھی جائیں گے اس حوالے مفتی منیب الرحمن بھی کچھ لکھیں تو شہداء کے لواحقین اور گھر والوں کو مزید اطمینان حاصل ہو سکتا ہے ایک اور نکتہ کی وضاحت علماء حضرات کر سکتے ہیں کہ شہید کو مرتے وقت اتنی کم تکلیف ہوتی ہے جیسے کہ کسی نے سوئی چبھو دی ہو اسی طرح جن لوگوں آخر وقت میں کلمہ پڑھنے کی توفیق مل جاتی ہے ان کا دم بھی آسانی سے نکل جاتا ہے اس لیے میرا خیال ہے کہ جہاز میں جو چیخ پکار سننے کو ملی اس میں خوف کا عنصر زیادہ شامل تھا جلنے کی تکلیف یقینا بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن شہادت پانے والوں کو شاید اتنی تکلیف نہ ہوتی ہو۔