کون سا چہرہ چاہیے

270

رمضان المبارک کے لمحات اور عید گزر گئی، کورونا اور گرمی بھی ٹکا کر کڑاکے نکال رہی ہے، سیاسی درجہ حرارت بھی گرم ہوا چاہتا ہے، اسی لیے تو شہباز شریف قرنطینہ میں چلے گئے ہیں تاکہ حکومت صدر کے خطاب کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی کارروائی اپنی سہولت کے مطابق چلا سکے، اس کے بعد بجٹ ہے، اور پھر بجٹ اجلاس جاری رہے گا، پارلیمانی اور جمہوری نظام میں اپوزیشن ’’گورنمنٹ ان ویٹنگ‘‘ کہلاتی ہے حکومت کی پالیسیوں پر قانون کے دائرے میں رہ کر گرفت کرکے وہ پارلیمان کا کردار بڑھاتی ہے مگر شہباز شریف کے بطور قائد حزب اختلاف سیاسی کردار کی کسی بھی قیمت پر حمایت نہیں کی جاسکتی، جس طرح پیپلزپارٹی کو آصف علی زرداری نے نقصان پہنچایا بالکل اسی طرح شہباز شریف مسلم لیگ(ن) کو نقصان پہنچا رہے ہیں اپوزیشن کی نمائندگی کے بجائے وہ حکومت کے لیے مکمل سہولت کار بنے ہوئے ہیں، بکری بن جانا اسے ہی کہتے ہیں حکومت کی پالیسیوں پر اخبارات میں اداریہ لکھا جانا اور اپوزیشن کی تنقید کا ہرگز ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ سیاست اور صحافت حکومت کے خلاف شر انگیزی کر رہے ہیں المیہ یہ ہے کہ آج کل ہر حکومت اسے شر انگیزی ہی سمجھتی ہے، حکومت کوئی بھی ہو، عوام اسے چوکیدار سمجھتے ہیں کہ حکومت انہیں بیرونی جارحیت سے بچائے گی اور اندرونی سلامتی بھی یقینی بنائے گی۔
ان دنوں کورونا کی وبا کا موسم ہے، زندگی کا ہر رخ حتیٰ کہ عبادت گاہیں بھی متاثر ہوئی ہیں، لاک ڈائون کی خلاف ورزیاں بتاتی ہیں کہ حکومت کہیں نظر نہیں آئی، ملک کی کل آبادی کے ساٹھ فی صد آبادی والا صوبہ بزدار صاحب سے سنبھالا نہیں جارہا، پوری دنیا کے سائنس دانوں کی یہ رائے سامنے آئی کہ اب دنیا کو کورونا کے ساتھ ہی رہنا سیکھنا ہوگا اسی دوران پاکستان میں قومی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے اندیشہ ظاہر کیا کہ لاک ڈائون ہٹانے سے روزانہ کی بنیاد پر کورونا کیسز کی تعداد میں 15سے 20فی صد اضافہ ہو سکتا ہے، ہوسکتا ہے کہ شہباز شریف عالمی سائنس دانوں کی رائے کے مطابق زندگی کے شب و روز ڈھالنے کے لیے خود کو تیار کر رہے ہوں۔ ابھی چند روز ہوئے یوم تکبیر گزرا ہے، ہر کوئی اسے اپنا کریڈٹ سمجھتا ہے، پیپلزپارٹی کہتی ہے کہ بم بھٹو نے بنایا اور مسلم لیگ کہتی ہے نواز شریف نے دھماکہ کیا، کوئی نہیں کہتا کہ پاکستان نے ایٹم بم بنایا اور پاکستان نے دھماکہ کیا، تاہم یہ واقعہ ملکی اور علاقائی سیاست سے الگ کرکے بھی نہیں دیکھا جاسکتا، اس لیے ہر حکومت کریڈٹ لینا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف کو یہ نعرہ دینا چاہیے تھا کہ بم پاکستان نے بنایا، بہر حال یہ بھی الجھی رہی، مجید نظامی نے نواز شریف سے کہا تھا دھماکے کرو گے تو امریکا تمہارا دھماکہ کر دے گا، نہیں کرو گے تو قوم تمہارا دھماکا کر دے گی۔ دھماکا اگرچہ 1998 میں کیا گیا مگر سرنگ جس میں دھماکے کیے گئے اس کی تعمیر جولائی 1977ء میں شروع ہوئی، اور یہیں سے جنرل ضیاء الحق بھٹو حکومت ختم کرکے اقتدار میں آئے، 1982ء میں یہ کام مکمل کرلیا گیا تھا کوئٹہ سے تقریباً 347 کلومیٹر، دالبندین سے 90 کلومیٹر اور شاہراہ آر سی ڈی سے ایک گھنٹے کی مسافت پر، اس جگہ کا انتخاب خوب سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔ سرنگ میں سامان کی نقل و حمل کے لیے باقاعدہ پٹری بچھائی گئی تابکاری کو روکنے کے لیے مضبوط ترین دیواریں تعمیر کی گئیں، جن میں ہزاروں ٹن سیمنٹ اور کنکریٹ استعمال ہوا۔ 1996ء میں مزید کام کر کے اسے دھماکے کے قابل بنا دیا گیا، جب یہ مبارک کام انجام دیا گیا تو اس وقت ملک میں نوازشریف وزیر اعظم تھے، جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف تھے، بے نظیر بھٹو قائد حزب اختلاف تھیں، انہوں نے حیدرآباد میں جی ڈی اے کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چوڑیاں پھینکی تھیں کہ اگر نواز شریف دھماکا نہیں کرتے تو یہ چوڑیاں پہن لیں، دھماکے سے قبل ملکی سیاسی قیادت کے علاوہ مسلم ممالک کی قیادت سے طویل مشاورت کی گئی تھی، لیکن عمران خان اس وقت سیاسی قیادت کے ساتھ کیے جانے والے مشورے میں شامل نہیں تھے 2 مئی1998 کا نوائے وقت پڑھیے، جب کچھ سامنے آجائے گا، بہر حال ہمیں کچھ نہیں کہنا، عمران خان جانیں اور خبر شائع کرنے والے جانیں۔
گزشتہ ہفتے گزری ہوئی عید پر سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے جوانوں سے ملاقات کے لیے کنٹرول لائن پر پہنچے، آزاد کشمیر کی اہم ترین پوسٹ پر اگلے مورچوں میں جوانوں اور افسروں کے ساتھ عید منائی اور کور کمانڈر 10 کور لیفٹیننٹ جنرل اظہر، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار بھی ان کے ہمراہ تھے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر پر عین کنٹرول لائن پر واقع ہونا سیکٹر کے اہم مورچے پر یونٹ سے ملاقات کی یہ وہی یونٹ تھی جس نے گزشتہ سال پانچ فروری کو بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو زندہ گرفتار کیا تھا ان مورچوں سے کُچھ ہی فاصلے پر وہ برساتی تندڑ نالہ تھا جہاں پر ابھی نندن نے جان بچانے کے لیے اپنے تباہ شدہ جہاز سے چھلانگ لگائی تھی سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے عید کی نماز اپنے جوانوں کے ساتھ باجماعت ادا کی اور ملک و ملت کے لیے دعا کی اور جوانوں کو عید کی مبارک دی جنرل باجوہ نے جوانوں کو واضح پیغام دیا کہ پاک فوج کا جوان اور افسر برابر ہیں، دشمن کے ساتھ ہم سب مل کر شانہ بشانہ لڑیں گے اور آپ تنہاء نہیں پوری قوم آپ کے ساتھ ہے ہمارے سامنے صرف اور صرف وطن کا دفاع ہے۔ ہماری منزل شہادت ہے یا غازی اور دونوں کا اجر سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی اور دینے کی سکت نہیں رکھتا اگلے مورچوں پر کمانڈر بریگیڈیئر منیر اور کرنل عامر کی نگرانی میں مہمانوں کی چائے سے تواضح کی گئی، سپہ سالار کی اگلے مورچے پر عید منانا، جرأت اور جوانوں کو حوصلہ دینے کی علامت ہے، پوری قوم کو وہی جرأت چاہیے جو جرأت اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کی علامت ہو، حکومت تنقید برداشت نہیں کرتی اور گرمی بھی اسے ستاتی ہے، تحریک انصاف نے کہا تھا دو نہیں ایک پاکستان، جب طیارہ گرا اور لواحقین پریشان حال تھے، سیاسی قیادت کو اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا مگر وہ تو گرمی سے بچنے کے لیے نتھیا گلی چلی گئی۔