منزل ہے کہاں تیری اے مرضِ کورونائی؟

870

احمد حاطب صدیقی
ہم تو اُس دن دنگ ہی رہ گئے جب پروفیسر دانش جیسے مردِ دانا بھی ’’ہیئت ِ کورونائی‘‘ میں آتے دکھائی دیے۔ ہماری طرف آتے آتے یکایک ٹھٹھکے اور ناپ کر چھے فٹ کے فاصلے پر رُک گئے۔ پھر وہیں سے ہم پر سلام بھیجا۔
ہم نے سلام کا جواب دیتے ہوئے حیرت سے پوچھا:
’’پروفیسر! کیا یہ تم ہی ہو؟ اور کیا یہ آواز تمہارے ہی لب چوم کر نکلی ہے؟ بھئی کچھ پتا ہی نہیں چل رہا ہے کہ کہاں سے بولے ہو‘‘۔
اپنی کھلی پیشانی پر کئی بل ڈال کر بولے(گویا پھراُسی نادیدہ مقام سے اُن کی آوازآئی، جہاں سے پہلے بولے تھے): ’’کیا مطلب؟‘‘
مطلب سمجھایا: ’’میاں! وہ ڈھاٹا جو بے نتھے بَیلوں اور خوں خوار کتوں کے منہ پر باندھا جاتا تھا، وہی ڈھاٹا تمہارے منہ پر بندھا دیکھ کر خوف کے مارے ہمارا تو دم نکل گیا۔وہ تو خیر ہوئی کہ تمہارے جسم کے کسی حصے سے سلام کی آواز نکل آئی۔ یوں ہماری جان میں جان واپس آئی۔ ورنہ تمہیں ٹھوڑی سے لے کر ناک کے بانسے کی اوپری سطح تک یہ ڈھاٹا باندھے اور کسی صحرائی اونٹ کی طرح منہ اُٹھائے آتا دیکھ کر ہم تو فوراً اپنی جیب سے موبائل فون اور نقدی وغیرہ نکال کر پیش کرنے کو آمادہ ہوا چاہتے تھے۔ آخر یہ قیمتی اشیا جان سے زیادہ قیمتی تو نہیں‘‘۔
جواب ملا: ’’رہے نا وہی کالم نگار کے کالم نگار … دنیا بھر میں موت کا بازار گرم ہے اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے‘‘۔
عرض کیا: ’’بے شک، موت کا بازار گرم ہے اور باقی ہر بازار ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ مگر پروفیسر صاحب! ہمارے ایک صحافی دوست کچھ قبرستانوں سے اعداد وشمار لانے گئے تھے۔ اِک چوٹ مول لائے۔ کہنے لگے کہ گورکن بھی ڈھاٹا باندھے بیٹھا رو رہا تھا کہ ہر ماہ کم سے کم بھی پچیس، چھبیس جنازے آجاتے تھے۔ اب مہینے بھر میں… سات آٹھ… سات آٹھ… سے زیادہ میتیں آتی ہی نہیں۔ مرنے والے نہ جانے کدھر مرگئے؟ قبرستان کا رُخ کرتے ہی نہیں۔ وبا میں تو موت کی ارزانی ہو جاتی ہے۔مگر لوگ بھلا مریں بھی تو کیسے مریں؟ سڑکوں پر ٹریفک کی مارا ماری نہ رہی۔ ڈاکٹروں کے نجی کلینک پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ سب کے سب آن لائن بیٹھے نسخے لکھوا رہے ہیں۔ سرجنوں کو بات بات پر (ہر موٹی آسامی کا) آپریشن کر ڈالنے کا موقع میسر نہیں آ رہا۔ پھر مریضوں کو بھی کھلی چھوٹ مل گئی ہے کہ دوائیں نہ خرید کر اپنا جینے کا حق استعمال کرتے پھریں۔ آخر لوگ مریں تو کیسے مریں؟ یہ کہتے کہتے گورکن پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ہمارے دوست بھی، جو کورونائی اموات کے اعداد وشمار لینے گئے تھے، آب دیدہ ہوگئے۔ ہاتھ اُٹھا کر دُعا کی:
گورکن کے بال بچے بھوک سے بے تاب ہیں
کوئی مر جائے تو یہ جی جائیں اے پروردگار
پھر بے دلی سے من من بھر کے پاؤں اُٹھاتے واپس آگئے۔ اُن کو من پسند اعداد و شمار جو نہ مل سکے‘‘۔
پروفیسر صاحب نے چھے فٹ کا فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے بے قراری سے کہا:
’’اعداد و شمار کو شک اور شبہے کی نگاہ سے مت دیکھو۔ دنیا بھر میں لاکھوں افراد مرگِ کورونائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ وطن عزیز میں بھی ان کا شمار ہزاروں کی سرحد کو پار کر رہا ہے۔ یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ نجی اسپتال بند پڑے ہیں۔ بہت سے کھلے بھی پڑے ہیں۔ جو طبیب اور جو طبی عملہ (اپنی) جان پر کھیل کر ان وبائی مریضوں کی خدمت کر رہا ہے وہ انتہائی لائقِ تحسین ہے‘‘۔
ہم نے تائید کی: ’’دریں چہ شک؟ وہ زمانے لد گئے جب طبیب اور طبی عملہ صرف مریضوں کی جان سے کھیلا کرتا تھا۔ اب یہ کھیل خود اُن کی جان کو بھی آ گیا ہے۔ کئی اطبا اور کچھ طبی عملہ اسی کھیل میں جان سے گیا۔ سچ ہے کہ اپنی جان سے کھیلنا کوئی کھیل نہیں ہے۔ مگر ہم نے سنا ہے کہ طبیبوں اور طبی عملے کو جو خود حفاظتی کورونائی لباس پہنایا گیا ہے، وہ ایسا خوفناک ہے کہ کمزور دل کے مریض تو نرسوں کو دیکھتے ہی ’’بھوت… بھوت‘‘ پکارتے ہوئے رحلت کر جاتے ہیں‘‘۔
پروفیسر صاحب بھڑک اُٹھے۔ کہنے لگے:
’’تم باز نہیں آؤگے؟ جن محسنوں کا تمسخر اُڑا رہے ہو، وہ فرشتے ہیں فرشتے‘‘۔
ہم نے پھر اُن کی تائید کی: ’’دریں چہ شک؟ شاید یہی وجہ ہے کہ مریض جب عالمِ غنودگی میں آنکھ کھول کر انہیں دیکھتا ہے توڈر جاتاہے کہ ساتھ لِوا جانے والے فرشتے آپہنچے۔ موت کے خوف ہی سے بے موت مرجاتا ہے‘‘۔
اب پروفیسر دانش یکایک سنجیدہ ہو گئے: ’’موت کا خوف ہی تو ہے جس نے پوری دنیا… پورے عالمی گاؤں … میں سناٹا سا طاری کر دیا ہے۔ شہر خالی، جادہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی…‘‘
ہم نے فوراً بات کاٹی: ’’خانہ کہاں خالی ہے؟ لاک ڈاؤن نے تو تمام شوہروں کا خانہ خراب کر کے رکھ دیا ہے۔ ویسے یہ موت کا خوف چہ معنی دارد؟ احتیاط، پرہیز، علاج سب اپنی جگہ درست اور سب لازم و ملزوم۔ مگر یہ ہمار ایمان ہی نہیں، پوری دنیا کا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ موت سے کوئی بھی بچ نہیں پاتا۔ جرمِ زندگی کا ارتکاب کرنے والے ہر ذی روح کو سزائے موت ہوتی ہے۔ موت تو جب آنے کو ہو، جہاں آنے کو ہو اور جیسے آنے کو ہو، آکر رہتی ہے۔ پس، داناؤں نے کہا ہے کہ موت سے بچنے کی اُپائے میں اپنی جان کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ جہنم سے بچنے کی کوشش کِیا کرو۔ موت سے تو ہرگز نہ بچ سکو گے۔ ہاں جہنم سے بچنے کی کوششیں اگر جنت و جہنم کے مالک کی بارگاہ میں مقبول ہو گئیں تو اُس کے فضل و کرم اور اُس کی بے پایاں رحمتوں سے یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ تم جہنم سے بچ جاؤ گے‘‘۔
ہماری کتابی دانش پر مشتمل تقریر سن کر پروفیسردانش کی حسابی دانش اچھی خاصی ڈاؤن بلکہ ’لاک ڈاؤن‘ ہو چکی تھی۔ کہنے لگے:
’’جنابِ من! یہی دنیا جہنم بن چکی ہے۔ کُل نظامِ عالم تمہارے کالم کا ’’مستقل عنوان‘‘ ہو کر رہ گیا ہے۔ دانشِ مغرب، جس نے اعلان کر رکھا تھا کہ: “God is dead” اب خود اہلِ مغرب کی نظر میں مشکوک ہوتی جارہی ہے۔ کورونا کے غیر مرئی جراثیم کسی سازش کی پیداوار ہوں یا کسی سوزش کی۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ اُس حی و قیوم نے ایکحقیر جرثومے سے بساطِ عالم پر سجی، سیاسیاتِ عالم کو مات دے دی ہے۔ اٹلی میں لوگ (ایک دوسرے سے محتاط سماجی فاصلہ رکھتے ہوئے) سڑکوں ہی پر سر بہ سجود پائے گئے۔ ’’دنیا کی واحد سپرپاور‘‘ کے سربراہ اور نیوورلڈ آرڈر کے ’’منتخب بادشاہ‘‘ صدر ڈونلڈ ٹرمپ قرآنِ حکیم کی تلاوت سنتے ہوئے دکھائے گئے۔ حضرتِ پیوٹن روسی آئین میں خدا کا ذکر شامل کرنے کی رجعت پسندی پر اُتر آئے۔ جن ممالک میں مسلم خواتین کو منہ پہ نقاب لینے پر جرمانے ہوتے تھے، اب وہاں یہ بالشت بھر کا نقاب نہ لینے پر جرمانے کیے جا رہے ہیں۔ اس کورونائی انقلاب کے بعد اب کسی پر اپنا چہرہ یعنی اپنی شناخت چھپانے کا الزام بھی نہیں لگ رہا ہے۔ ایک غیر ملکی ائر لائن سے سفر کرنے کا موقع ملا تو نیم عریاں پھرتی رہنے والی ائر ہوسٹس جس حفاظتی لباس میں ملفوف تھی اُس میں وہ ائر ہوسٹس کم اور ’’ائر گھوسٹس‘‘ (Air Ghostess) زیادہ لگ رہی تھی۔ وطن عزیز میں عورت مارچ کی ماری حسینائیں بھی اسی بالشت بھر کپڑے سے اپنا منہ چھپاتی پھر رہی ہیں۔ آخر کس منہ سے کہیں کہ ’’میرا منہ میری مرضی‘‘۔ ان کے منہ پر ڈھاٹا تو کسی اور کی مرضی نے باندھا ہے۔ ایک مخلوط مرد وزن کانفرنس میں شرکت کی تو وہاں بھی ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ رکھے ہوئے سب مرد و زن اپنے اپنے منہ پر ڈھاٹا باندھے بیٹھے تھے۔ جب کوئی بولتا تھا تب اندازہ ہوتا تھا کہ ڈھاٹے کے پیچھے ’’مُچھّاں والی سرکار‘‘ ہے یا پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے۔ اب WHO والے کہتے ہیں کہ اس کورونا سے نجات تو ناممکن ہے۔ آئندہ پوری دنیا کو کورونا کے ساتھ ہی زندہ رہنا پڑے گا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ … منزل ہے کہاں تیری اے مرضِ کورونائی؟‘‘
ہم نے پروفیسر صاحب سے عرض کیا:
’’عالمی ادارۂ صحت کے اس اعلان سے ہماری صحت پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مگر خود اُسی کی صحت پر یہ منفی اثر پڑا ہے کہ ٹرمپ صاحب نے اس ادارے کو اُس کی نا اہلی پر مزید ڈالر نہ دینے کی دھمکی دے ڈالی ہے۔ مستقبل سے متعلق ایسے تمام اعلانات اسی مفروضے کے تحت کیے جاتے ہیں کہ “God is dead” یہ لوگ اب بھی وہ بات نہ سمجھے جو اقبالؔ نے اپنی ایک سیاسی نظم ’’سلطنت‘‘ میں اہل مغرب کو سمجھائی تھی:
سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اِک وہی، باقی بُتانِ آزری
جدید آزروں کے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کرنے والے کیا جانیں کہ یہ دنیا کیسے زندہ رہے گی اور کب تک زندہ رہے گی؟ اس کا فیصلہ مغرب کے انسان ساختہ اداروں کے ہاتھ میں نہیں۔ سو، ہمیں ان سے ڈرنے کی ضرورت بھی نہیں‘‘۔
ہماری یہ بات سنتے ہی پروفیسر صاحب نے مارے خوشی کے رُخصت کی ٹھانی اور الوداعی مصافحے کے طور پر اپنی کرخت کہنی موڑ کر ہماری نازک کہنی سے کہنی بھڑانے کو لپکے تو ہم نے مزید چھے فٹ پیچھے ہٹ کر اُن کی یہ کوشش ناکام بنا دی اور انہیں اطلاع دی:
’’ہمارے مربی و مشفق، ہمارے کہنہ مشق مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی حفظہ اللہ، ابھی اسی عید کے موقع پر اپنے ملنے والوں سے یہی ’’کہنی مشق‘‘ کرکر کے اپنیکہنی سُجا بیٹھے ہیں۔ صاحب! ہمیں تو اس نئی تہذیبی یلغار سے معاف ہی رکھیے‘‘۔