محبت اور عقیدت میں اتنا باریک فرق ہے جِسے کورونا وائرس دیکھنے والے آلات بھی نہیں دیکھ سکتے مگر یہ ایسا معاملہ ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ محبت لینے پر بضدت رہتی ہے۔ کہتے ہیں محبت رشتے داروں عزیز و اقارب اور ممتا ز شخصیات سے ہوتی ہے۔ مگر عقیدت مذہبی یا سیاسی شخصیات سے ہوجائے تو آدمی قوت گویائی سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ صرف سنتا ہے بولتا نہیں اور جب یہ عقیدت وبا کی طرح پھیل جائے تو بت پرستی سے زیادہ خطرناک بن جاتی ہے۔ ہمارا قومی المیا یہی ہے کہ ہم من حیث القوم انتہا پسند ہیں۔ انتہا پسندی مذہبی ہو یا سیاسی وبائی امراض کی طرح خطرنا ک ہوتی ہے۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ ہم 72سالہ ہو کر بھی سات سالہ بچے کی سوچ سے بھی آگے نہ بڑھ سکے شاید ہمیں کسی ایسے وائرس نے دبوچ رکھا ہے جو مقتدر طبقے کو بڑھنے تو دیتا ہے بڑا نہیں ہونے دیتا۔ ہمیں ساری خوبیاں اپنی پسندیدہ شخصیت ہی میں دکھائی دیتی ہیں اور ساری خرابیاں اپنے رہنما کے مخالفین ہی میں دکھائی دیتی ہیں۔ بنیادی طور پر سیاست ملکی نظام کو بہتر انداز میں چلانے اور قومی مفادات پر سمجھوتا نہ کرنے کا نام ہے۔ مگر ہمارا سیاسی نظام ذاتی مفادات اور تحفظات کو فوقیت دیتا ہے بدقسمتی یہ بھی ہے کہ جو پارٹی ایوان اقتدار پر قابض ہوجائے وہ قبضہ گروپ بن جاتی ہے اور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ملکی اور قومی مفادات کا سودا کرنے سے بھی نہیں چوکتی۔ تحریک انصاف کو شکوہ ہے کہ اس کی خرابیان تو گنی جاتی ہیں، اس کی عیب جوئی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی مگر مسائل اور مشکلات کا حل بتانے پر کوئی آمادہ نہیں ہوتا۔ بندہ نواز ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے۔ ہر مصیبت ٹالی جاسکتی ہے مگر اس کے لیے مکالمے کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ آپ بھارت سے ہر موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے ہمہ وقت لنگر لنگوٹ باندھے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ بھارت کی منت سماجت سے بھی باز نہیں آتے مگر اپنے مخالفین سے بات چیت تو کجا ہاتھ تک ملانا گوارا نہیں کرتے آپ کی نظر میں ہر مخالف کورونا زدہ ہے۔ حالانکہ ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو نیب زدہ ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ٹماٹر مہنگا ہوگیا تو میڈیا نے آسمان ہی نہیں ساری دنیا کو سر پر اٹھا لیا حالانکہ یہ معمولی واقعہ تھا سبزیوں کے نرخ سے ملکی معیشت کو جوڑنا سر پھوڑنے کے مترادف ہے۔ عقلی اعتبار سے چیگیزخان کو ابو جہل کو ہم پلہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا مگر عقل و دانش کے اعتبار سے وہ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ حکمرانوں سے زیادہ حکمرانی کے آداب سے آگاہ تھا۔ کہتے ہیں خان اعظم بستر مرگ پر پڑا تھا اس کے درباری اور احباب و اقارب اس کے نزدیک ہی بیٹھے تھے خان اعظم کے انجام کے بارے میں سوچ رہے تھے اور خان اعظم نے سب کو ایک نظر دیکھا اور کہا آپ لوگ کچھ پوچھنا چاہتے ہیں مگر ہمت نہیں پڑ رہی ہے میں وعدہ کرتا ہوں کہ جو جی چاہے پوچھ لو قطعاً برا نہیں مانوں گا ایک درباری نے ہمت کی اور کہا آپ آسمانی باپ کے پاس جارہے ہیں آپ کے خیال میں وہاں آپ کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا۔ خان اعظم یہ سن کر مسکرایا اور کہا آسمانی باپ میرے استقبال کی تیاری کررہا ہو گا۔ استفسار کیا گیا یہ جو آپ نے اس کی مخلوق کا قتل عام کیا گیا ہے آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے۔ خان اعظم نے کہا موت اور زندگی کا معاملہ آسمانی باپ کی مرضی کے تابع ہوتا ہے میں نے اس کے حکم اور مرضی کی تعمیل کی ہے جہاں تک میری ذاتی کارکردگی کا تعلق ہے تو میں نے کبھی کسی نالائق اور نااہل آدمی کو کوئی ایسا اہم عہدہ نہیں دیا جو آسمانی باپ کی اولاد کے لیے باعث تکلیف بنتا۔ اور میرا یہی عمل آسمانی باپ کو ہر کام سے زیادہ عزیز ہے اور میں ساری زندگی اس کام کو اپنی زندگی سے بھی زیادہ اہم سمجھتا رہا۔
وزیر اعظم عمران خان کا دعویٰ تھا کہ وہ کرپشن کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ مگر معاملہ اس کے برعکس ہے انہوں نے خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک عزیز ترین کام کو بے وقعت کردیا ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ وہ کبھی اس معاملے میں سوچیں کہ خدا کے دربار میں ان کے ساتھ کیا ہوگا۔ آپ راشن ڈپو کا نظام لانا نہیں چاہتے کیونکہ ڈپو ہولڈر کے لیے تحریک انصاف کا ورکر ہونا ضروری قرار نہیں دیا جاسکتا چینی کی قیمتوں پر کنٹرول کرنے کے لیے گنے کی قیمت کنڑول کی جاسکتی ہے شوگر مالکان کو ضرورت سے زیادہ گنا خریدنے پر روکا جاسکتا ہے۔ گندم اور گنا ضرورت کے مطابق خریدا جائے تو چینی اور گندم کی اسمگلنگ روکی جاسکتی ہے حکومت کو سبسڈی بھی نہیں دینی پڑے گی اس طرح ملک کی بہتر انداز میں خدمت کی جاسکتی ہے اور قوم کو آئے روز کی مہنگائی سے نجات مل سکتی ہے۔ دس، پندہ برس قبل گڑ اور چینی غریب آدمی کے لیے غنیمت ہوا کرتی تھی مگر جب سے شوگر مالکان نے شوگر کی ذخیرہ اندوزی شروع کی ہے کسان کے پاس اتنا گنا نہیں ہوتا کہ وہ گڑ اور شکر بنا سکے جو کسان گڑ اور شکر بناتے ہیں وہ چینی سے دوگنی قیمت پر فروخت ہوتی ہے کیونکہ نا اہل حکمران قوم کے بارے میں نہیں سوچتے۔