سو کیسز پر لاک ڈائون ،75 ہزار پر لاک ڈائون ختم ،یہ کیسی پالیسی ہے ، مشتاق خان

99

پشاور (وقائع نگار خصوصی) امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ کورونا وبا کے معاملے پر حکومتی رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے۔ 100 کیسز میں لاک ڈاؤن لگایا اور جب کیسز 75 ہزار سے بڑھ گئے تو لاک ڈاؤن ختم کیا گیا، یہ کیسی پالیسی ہے۔ اوورسیز کا مسئلہ انسانی المیہ ہے۔ شدید دھوپ میں اوور سیز پاکستانی لمبی قطاروں میں سفارتخانوں کے باہر اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ سعودیہ، عرب امارات اور ملائیشیا میں مرنے والوں کی لاشوں کی توہین ہورہی ہے۔ مختلف ممالک کی انٹرنیشنل ایئرلائن کمپنیوں نے حکومت کو پاکستانیوں کی واپسی کے لیے اپنا تعاون پیش کیا لیکن حکومت نے اسے مسترد کیا۔ حکومت اوورسیز پاکستانیوں سے ٹکٹ کی مد میں ڈبل رقم وصول کرکے اور ٹکٹ بلیک میں فروخت کرکے پی آئی اے کا خسارہ پورا کرنا چاہتی ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل نہیں کیے گئے تو صوبے کے مختلف اضلاع میں عوام کو سڑکوں پر لانے کا آپشن استعمال کرسکتے ہیں۔ حکومت پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے اور اپوزیشن کے ساتھ مل کر کوئی واضح حکمت عملی اور نیشنل ایکشن پلان دے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت کو اپنے تعاون کا یقین دلایا تھا لیکن حکومت سیاسی بلوغت سے عاری ہے۔ انہوں نے اپوزیشن کے تعاون کو اہمیت نہیں دی۔ پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ پاکستان کا جی ڈی پی گروتھ تاریخ میں پہلی مرتبہ منفی ہونے کا خدشہ ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے تاریخ کے بلند ترین قرضے لیے۔ حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ الخدمت فاؤنڈیشن کی 91 ایمبولینسز باچا خان ایئرپورٹ کے باہر میتوں کو ان کے علاقوں میں پہنچانے کے لیے تیار کھڑی ہیں۔ ہمارے اسپتال اور قرنطینہ سینٹرز اوورسیز پاکستانیوں کے لیے کھلے ہیں، حکومت چاہے گی تو یہ سب ان کے حوالے کردیں گے۔ قرنطینہ فیس کے نام پر پیسے بٹورنا بند کیا جائے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ سفارتخانوں کے ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے کھلا رکھا جائے اور انہیں ریلیف سینٹرز قرار دیا جائے۔ حکومت اوورسیز پاکستانیوں کے علاج معالجے کے لیے میڈیکل ٹیمیں بھیجے، اگر حکومت ڈاکٹروں کا انتظام نہیں کرسکتی تو ڈاکٹر بھی الخدمت فراہم کرلے گی۔ لیکن حکومت نے اب تک این جی اوز کا اجلاس ہی طلب نہیں کیا، نہ ہی اس وبا میں ان سے کوئی مشاورت کی۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ این جی اوز کو ساتھ بٹھاتی اور ان کو کام حوالے کرتی لیکن حکومت نے وہ بھی نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کا مسائل ترجیحی بنیادوں پرحل کیے جائیں اور سعودی عرب، ملائیشیا، عرب امارات سمیت دیگر ممالک کی ایئر لائنز سے پاکستانیوں کو واپس لانے کے لیے درخواست کرے۔