بلا وجہ کی غلط فہمیاں

329

آج میں نے ایک ایسے موضوع پر قلم اٹھانے کی کوشش کی ہے جس کا تعلق کورونا سے ہے نہ ملکی معیشت و سیاست سے ہے نہ ہی یہ ملک کے کسی حادثے یا واقعے سے ہے بلکہ یہ ایسا مشکل موضوع ہے کہ جس کو میں شاید بہت وضاحت سے بیان نہ کرسکوں لیکن کسی حد تک آسان الفاظ میں مسئلے کی مشکلات اور پیچیدگیوں کو بتا کر اس کا حل بھی معلوم کرنے کی کوشش کروں گا۔ آپ کو اور ہم سب کو اپنی زندگی میں بعض اوقات ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں آپ کوئی غلطی یا جرم نہ کرنے کے باوجود اپنے ساتھیوں کی نظر میں مجرم بن جاتے ہیں۔ مزید طرفہ تماشا یہ آپ اپنے رویے، فیصلوں اور اس حوالے سے اپنے کردار کی جتنے موثر دلائل کے ساتھ وضاحت کرنے اور اپنی نیت کی درستی کا یقین دلانے کی کوشش کریں گے اتنا ہی آپ پکے مجرم بنتے چلے جائیں گے۔ اب آپ کو ہر وقت یہ احساس ندامت Guilty conciuos رہنے لگتا ہے کہ آپ ساتھیوں کی نظر اپنی پوزیشن کس طرح کلیئر (صاف) کریں، اس لیے آپ یہ سوچتے ہیں کے آپ نے اپنے حساب سے تو سب کچھ ٹھیک ٹھیک کیا لیکن نتیجہ غلط کیسے ہو گیا جیسے الجبرا میں یہ ہوتا ہے کہ اگر 9ہندسے پلس کے ہیں اور آخر میں ایک فیگر مائینس کی آگئی تو بالآخر اس کا نتیجہ بھی مائینس میں آتا ہے لیکن یہاں تو ساری فیگر پلس میں ہوتی ہیں لیکن پھر بھی نتیجہ خلاف توقع منفی ہو جاتا ہے، آپ پہلا اور فوری کام تو یہ کرتے ہیں اپنی ’’غلطی‘‘ تسلیم کرکے معذرت کر لیتے ہیں لیکن یہ فکر آپ کے اوپر ہر وقت غالب رہتی ہے جو امیج آپ کا متاثر ہوا ہے اس کو کیسے بحال کیا جائے اور یہ خدشہ بھی رہتا ہے کہ ہم پہلے والی پوزیشن پر واپس آبھی سکیں گے یا نہیں۔
ایک عملی مثال سے اس بات کی اور وضاحت ہو جائے گی جو لوگ بائیک چلاتے ہیں ان کو اکثر اس قسم کے حالات سے واسطہ پڑتا ہوگا آپ اپنے حساب سے گاڑی اپنے سامنے والے ٹریفک کو دیکھ کر چلا رہے ہیں کبھی دائیں مڑتے ہیں کبھی بائیں اب آپ کے پیچھے جو بائیک والا آپ کو کراس کرنا چاہتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ آپ اس کو آگے جانے کا موقع نہیں دے رہے ہیں حالانکہ آپ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں اور نہ ہی آپ کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیچھے والے کو کوئی جلدی ہے لیکن جب وہ موقع پاکر آپ کو کراس کرتا ہے تو غصے سے آپ کی طرف دیکھ کر مختلف جملے کستا ہوا جاتا ہے کبھی کہتا ہے کہ بزرگوار بائیک چلا رہے ہیں یا روڈ پر مستیاں کررہے ہیں، کوئی بہت لمبا چاچاااا کہتا ہوا یہ جملہ ادا کرتا ہے کہ ذرا دوسروں کا بھی خیال کر لیں کوئی آپ کو اپنے ہیلمٹ کے اندر سے گھورتا ہوا نکل جاتا ہے کوئی بدتمیز ایسا بھی ہوتا ہے جو جان بوجھ کر آپ کو ہلکا سا سائیڈ مار کر یہ جتانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس میدان میں آپ اکیلے ہی شہسوار نہیں ہیں آپ یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ یا اللہ میری ایسی کیا غلطی تھی جو یہ ناراض ہو گیا۔
اس طرح کی صورت حال آپ کو ہر جگہ پیش آسکتی ہے کبھی محلے میں، کبھی اپنے کاروبار میں، کبھی اپنے دفتر میں، کبھی اپنے رشتہ داروں اور خاندان میں اور کبھی اپنی ازدواجی زندگی میں۔ آپ کی اہلیہ نے کہا کہ آج ذرا آٹھ بجے تک آجائیے گا باجی کے گھر جانا ہے ان کی بچی کے رشتہ کے سلسلے میں کچھ لوگ نو بجے تک آئیں گے آپ نے وعدہ کرلیا ٹھیک ہے میں 8بجے تک آجائوں گا، اب آپ کسی مصروفیت میں ایسا الجھ گئے کہ بیگم صاحبہ سے وعدے کے مطابق وقت پر نہ پہنچ سکے۔ آپ نے کتنا ہی اہم کام کیا ہو اور آپ کا دل بھی مطمئن ہے کہ دینی اخلاقی اور شرعی اعتبار سے آپ کو اس کام کو ترجیح دینا چاہیے تھا، لیکن آپ کو یہی سننے کو ملے گا کہ اگر اپنے رشتے داروں کے یہاں جانا ہوتا تو ایک گھنٹہ پہلے ہی گھر آجاتے اب چونکہ ہمارے والوں کے یہاں جانا تھا اس لیے جان بوجھ کر دیر کی ہے اب آپ جتنی وضاحتیں دینے کی کوشش کریں گے اتنے ہی آپ بیک فٹ پر چلے جائیں گے۔ آپ یہی کہیں گے بیگم بلا وجہ غلط فہمیوں کا شکار نہ ہوں پہلے بارہا ایسا ہوا ہے کہ مجھے اپنے دوستوں یا رشتے داروں کے یہاں جانا تھا اور مجھے ہی خاصی دیر ہوگئی اور آپ کے رشتہ داروں کے یہاں جانے کے موقع پر تو میں ویسے ہی بہت محتاط رہتا ہوں لیکن کیا کریں کام ہی ایسا آگیا تھا کہ۔۔۔ اور ویسے بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی وہاں کے مہمان بھی ابھی نہیں آئے ہوں گے میں فون پر معلوم کرتا ہوں آپ نے فون کیا تو معلوم ہوا کہ تھوڑی دیر پہلے ان کو فون کیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ بس ہم دس پندرہ منٹ میں نکلنے والے ہیں اب وہ ہو سکتا ہے راستے میں ہوں، آپ کے اس عمل سے بسا اوقات غصہ کم ہونے کے بجائے اور بھڑک جاتا ہے اب آپ دل ہی دل میں اللہ میاں سے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ یہ ٹینس کا ماحول کچھ کم ہوجائے پھر آپ اپنی تیاری کرنے لگتے ہیں تو معلوم ہوا کے ایسے موقعوں پر اللہ ہی سے لو لگانا چاہیے ویسے بھی ایک عورت کے نزدیک دنیا کا سب سے آئیڈیل فرد اس کا باپ ہوتا ہے محنتی اور باصلاحیت اس کے بھائی لوگ ہوتے ہیں، سب سے نکما، ناکارہ، سست الوجود اور لاپروا اس کا شوہر ہوتا ہے۔
کاروبار میں بھی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے کلائینٹ سے بہت اچھی ڈیلنگ کی ہے ہر مرحلے پر اسے اعتماد میں لینے کی کوشش کی ہے اکثر حالات میں تو آپ کامیاب رہتے ہیں لیکن کبھی کبھی کسی وجہ سے کلائینٹ کی نیت میں کسی نامعلوم وجہ سے کوئی فتور آجاتا ہے تو کاروبار کے سارے مراحل میں آپ کی باتوں کو جھٹلاتا ہے آپ پریشان ہوجاتے ہیں کہ آپ نے اپنی سائیڈ سے تو سب کچھ ٹھیک کیا تھا یہ کیا ہوگیا اگر کوئی چیز پرنٹ کی ہے تو وہ یہ کہہ کر آپ کے سب کیے کرائے پر پانی پھیر دے گا کہ یار آپ نے اس میں پیپر وہ نہیں لگایا جو پہلے والی بکوں میں لگایا تھا آپ کہیں گے کہ بھائی میں نے تو پہلے ہی آپ کو بتا دیا تھا کہ یہ پیپر اب نہیں آرہا ہے اور یہ کاغذ تو آپ کو پہلے دکھا بھی دیا تھا پھر بھی وہ مرے دل کے ساتھ یہی کہہ گا ہاں آپ نے دکھا تو دیا تھا لیکن پرانی بکوں کے مقابلے میں مزا نہیں آرہا ہے آپ دل ہی دل میں یہی کہیں گے کہ مرغی بے چاری اپنی جان سے گئی لیکن کھانے والوں کو مزا نہیں آیا۔
زندگی کے اور شعبوں میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں اب اس کا حل یہی ہے کہ آپ اپنے رب سے دعا مانگیں کہ اے اللہ تو اپنے بندوں کی نیتوں کو بھی جانتا ہے اور ان کے عمل کو بھی اس کام میں میری نیت بھی ٹھیک تھی اور عمل بھی لیکن پھر بھی کوئی ایسی کمی رہ گئی ہو جو میں نہ سمجھ سکا تو تو مجھے معاف کردے اور نتائج جو غلط ہوگئے اس کو تو بہتر کردے ایسے موقع پر نبی اکرمؐ کی وہ دعا بھی اپنے ذہنوں میں تازہ رکھیں اور اللہ سے مانگتے رہیں جو آپؐ اکثر اپنے رب سے مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے اپنی نظر میں چھوٹا اور دوسروں کی نظر میں بڑا بنا دے۔ آمین