جانبداری، آدھا سچ اور مفادات

397

وقاص احمد
باوثوق اخباری اطلاعات کے مطابق (جو نہایت سہولت سے انٹرنیٹ پر ڈھونڈی جاسکتی ہے اور جو بوجوہ پاکستانی میڈیا تو درکنار، یورپین اور امریکی مین اسٹریم میڈیا پر بھی جگہ نہ پاسکی) ناروے کی ہیلتھ چیف نے بیان جاری کیا ہے کہ ڈھائی تین مہینے کے اعداد وشمار کے تجزیے کے بعد اب واقعتاً یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ناروے میں کورونا وائرس کے پھیلائو کی پیش گو شرح جو ہر انفیکٹڈ شخص کے لیے 3 سے زیادہ بتائی گئی وہ زیادتی پر مبنی تھی اور اب پچھلے اعداد وشمار کو دیکھ کریہ تعین ہوتا ہے کہ یہ شرح 1.1 ہی کے آس پاس رہی۔ کیونکہ ناروے میں بھی دیگر کئی ملکوں کی طرح لاک ڈائون سے پہلے ہی وائرس کے پھیلائو کا گراف نیچے آنا شروع ہوگیا تھا۔ واضح رہے کہ ناروے نے اپنے پڑوسی سوئیڈن کے بر خلاف بارہ مارچ سے سخت لاک ڈائون کے اقدامات کیے اور اسکولوں، عبادت گاہوں سمیت تمام پبلک مقامات، بازاروں کو بند رکھا۔ نارورے کی سرکاری ہیلتھ اتھارٹی نے گزشتہ ہفتے ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے جسے خوف کے شکار ہر پاکستانی اور خاص طور پر ڈاکٹرز اور تجزیہ کاروں کو پڑھنا چاہیے جس میں انہوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر تسلیم کیا کہ کورونا وائرس کبھی بھی اس طرح نہیں پھیل رہا تھا جس کا دعویٰ امپریل کالج لندن اور ہم نوا نے اپنے غلط اندازوں اور مستقبل کی خوفناک تصویر کے ذریعے کیا۔ (جس نے نہ صرف یورپ میں خوف کا بازار گرم کیا بلکہ ان کی آواز سے آواز ملانے والوں میں امریکا میں کلیدی عہدوں پر فائز ڈاکٹر انتھونی فائوچی، ڈاکٹر ڈیبرا برکس اور رابرٹ ریڈ فیلڈ بھی شامل ہوگئے جنہوں نے امریکا میں کورونا سے بائیس لاکھ لوگوں کے مرنے کی ہولناک خبر سنائی اور جس کو میڈیا کی اکثریت نے مبینہ طور پر اپنے سنسنی پسند کاروبار اور معاشی مقاصد کے لیے بھرپور ہوا دی)۔ رپورٹ میں یہ سنجیدہ سوال اٹھائے گئے کہ کیا کورونا وائرس کے لیے اس سطح کے انتہائی اقدامات ضروری تھے جس نے ناروے کے پورے بنیادی تعلیمی عمل کا ستیاناس کردیا (چھوٹے درمیانے کاروبار اور روزگار کی تو بات ہی نہ کی جائے)۔ ناروے کی صحت کی سربراہ کے مطابق عوام میں جسمانی فاصلوں اور حفاظتی اقدامات کی ترویج کے ذریعے (اور بعض حالات میں جرمانے اور کاروباری پابندیوں کی صورت میں جیسا سوئیڈن نے شروع ہی میں بعض ریسٹورنٹس پر جرمانے لگا کر کیا اور جس کے بعد تمام ریسٹورنٹس نے سماجی فاصلوں کی ہدایات پر عمل کرنا شروع کردیا) سماج اور معاش کو نقصان پہنچائے بغیر اس بیماری کا مقابلہ جاسکتا تھا۔ ناروے دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے لاک ڈائون کی وجہ سے تعلیمی نقصانات اور اس کے دور رس اثرات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی اور صرف اس نقصان کو دیکھنے کے بعد ہی وہ اس بیماری اور لاک ڈائون کے حوالے سے اس نتیجے پر پہنچنے پر مجبور ہوئے۔ رپورٹ کھل کر کہتی ہے کہ لاک ڈائون کو فوری کھولنے کے بعد اگر بیماری کی دوسری لہر آتی ہے (چونکہ لاک ڈائون سے ہرڈ امیونٹی کا توازن بھی بگڑا ہے) تو صحیح اور بہتر فیصلے کرنا ضروری ہیں۔ یعنی ایک ایسا فیصلہ جو سماج اور معاشرے کو مسائل اور تباہی کی طرف نہ لے کر جائے۔ ایک طرف ناروے ہے اور دوسری طرف ہمارے حکومتی وزارتوں کے زیر انتظام اور یونیورسٹیوں کے تحقیقاتی ادارے ہیں اور میڈیا کے تحقیقاتی رپورٹرز اور لکھاری ہیں جن کی طرف سے لاک ڈائون میں مزدوروں، محنت کشوں، فیکٹری ملازمین، دکان داروں اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں، دوسری بہت سی بیماریوں کے شکار مریضوں، طالب علموں اور بچوں کے حالات اور سماجی اثرات کے حوالے سے ریسرچ اور تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔
دوسری اہم اور مصدقہ خبر جو یورپ اور امریکا کے چھوٹے اخبارات ہی نے رپورٹ کی اور بڑے اخبار اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی وجہ سے اس سے کنی کترا گئے وہ یہ ہے کہ امریکا کے بیماریوں کے روک تھام کے سب سے بڑے ادارے سی ڈی سی نے امریکا میں تمام کورونا اموات کی شرح (جس میں لوگوں کو شک کی بنیاد پر بھی شامل کیا گیا، غلط پی سی آر ٹیسٹ والوں کو بھی شامل کیا گیا، ان لوگوں کو بھی شامل کیا گیا جو دل، گردے، کینسر، پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریوں
کے آخری اسٹیج پر تھے) 0.26فی صد کے قریب قرار دی۔ جبکہ اس میں راقم کا غالب گمان ہے کہ ان لوگوں کو صحیح تناسب سے بھی شامل نہیں کیا گیا جو کورونا سے متاثر ہوئے لیکن بغیر اسپتال آئے اور گئے بغیر کہ وہ کورونا وائرس کا شکار ہوئے ہیں صحتیاب ہوگئے یا بیمار ہی نہیں پڑے۔ یہ دونوں خبریں انتہائی غیر معمولی اور اہم ہیں۔ اہل علم و نظر کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس وائرس کے لیے آخر کیوں بل گیٹس، بڑی فارما کمپنیاں اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے مغرب سے لیکر مشرق تک کے سیاسی رہنما اور میڈیا کی اکثریت ہمیں ویکسین کی آمد کی قوالی سنا رہے ہیں۔ کیوں تقریباً سارا میڈیا بل گیٹس، بڑی فارما کمپنیوں اور ان کے ہم نوا ڈاکٹروں کی بولی بول رہا ہے۔ بل گیٹس اور بڑی فارما کمپنیوں کے مفادات تو سمجھ میں آتے ہیں لیکن میڈیا اور سیاسی رہنمائوں، حکمرانوں کے ایسے کون سے مفادات وابستہ ہوگئے ہیں جو وہ دنیا کے سات ارب لوگوں کو چودہ ارب ٹیکے لگانے کی پلاننگ کر رہے ہیں۔ ایک ایسا ٹیکا جو اس نوعیت کے وائرس کے لیے پہلا ہوگا۔ جو اتنی جلد بازی میں بنایا جارہا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ جس کی ٹیسٹنگ میں ضروری مراحل کو نظر انداز کرنے کی خبریں آرہی ہیں۔ جن افراد پر یہ ویکسین ٹیسٹ کیا جا رہا ہے وہ دنیا میں موجود لوگوں کی تمام عمروں، صحت کے مسائل، جسمانی خواص اور دیگر کئی چیزوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ویکسین کے سائڈ افیکٹس کو جانچنے کے لیے بھی برسوں کا وقت چاہیے ہوتا ہے تبھی کوئی بھی ویکسین مکمل نہ بھی سہی قدرے محفوظ قرار دی جاتی ہے اور ہمارے وزیراعظم پتا نہیں کیوں ویکسین کے انتظار کا عالمی فریضہ سر انجام دے رہے۔ امریکا جیسے ملک میں جہاں دس لاکھ پر تین سو سے اوپر لوگ مرے اور شرح موت 0.26فی صد سے کم رہی وہاں بھی با شعور لوگ سوال کر رہے ہیں کہ بتایا جائے ویکسین کیسے بنائی جارہی ہے، کس آزاد ادارے سے چیک کرائی جارہی ہے، نوجوانوں اور خاص طور پر بچوں کو خوامخواہ یہ کیوں انجیکٹ کی جائے۔ جبکہ پاکستان میں جہاں دس لاکھ پر الحمدللہ صرف سات اموات ہیں وہاں کے وزیر اعظم غیر ذمے دارانہ لا علمی کا شکار ہیں یا پھر تجاہل عارفانہ کے مصداق بن رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے یہ جاننا آپ کا فرض ہے کہ قوم کے لوگوں، بچوں کے جسم میں کیا چیز جا رہی ہے۔ خاص طور پر وہ چیز جو حکومتی سرپرستی اور ذمے داری کے ذیل میں آتی ہے اس حوالے سے چوکنا رہنا اور صحیح اقدامات کرنا بے انتہا اہم ہے۔ قومی صحت کے حوالے سے فون پر بل گیٹس کی ہاں میں ہاں ملانا کمال نہیں غفلت ہوسکتا ہے۔ راقم کا ادنیٰ خیال ہے کہ جب تک آنے والی ویکسین کے استعمال کے اثرات اور اس کے شفاف تجزیات اٹلی، برطانیہ، اسپین، امریکا سے نہیں آجاتے، پاکستان میں ویکسین کی درآمد اور استعمال کے بارے میں سوچا بھی نہ جائے اور اس بھیڑچال والے میڈیا کو بھی سمجھا دیا جائے۔ ہاں علاج چاہے وہ دوا سے ہو یا اینٹی باڈیز سے پْر پلازما سے ہو یا
دوسری ریسرچ ہو اس پر بھرپور کام کیا جائے۔ کارپوریٹ معاشی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عوام کی صحت پر رونے اور فکر مند ہونے کا حق اگر میڈیا ادا کرنا چاہتا ہے تو وہ سگریٹ نوشی اور دیگر مضر صحت کھانوں اور مشروب کے خلاف پروگرام کرنے اور مہم چلانے کی ہمت کرے۔ موٹاپا دور کرنے اور قوت مدافعت بڑھانے کے لیے کیا ضروری ہے اس پر کھل کر بات کرے۔ اور اگر یہ کام مشکل ہے تو کم از کم کورونا وائرس اور ویکسین کے بارے میں سائنسی اور طبی حلقوں میں اٹھنے والے تمام سوالات اور تجزیات کا احاطہ کیا جائے اور آزاد ذہن یا متبادل رائے کے حامل سائنسدانوں اور ڈاکٹرز کو بھی موقع دیا جائے۔ آپ کی طرح وہ صرف کورونا نہیں بلکہ عوام کی جسمانی اور ذہنی صحت سے جڑے تمام پہلوئوں کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ مین اسٹریم میڈیا اپنی جانبداری، خبروں کے یک طرفہ انتخاب اور آدھا سچ پیش کرنے کی وجہ سے دنیا کے سنجیدہ اور بالغ النظر علمی لوگوں میں شدید غیر موثر اور ناقابل اعتماد ہوتا جارہا ہے۔ لوگ سوشل میڈیا پر دوسرے تجربہ کار، انتہائی تعلیم یافتہ کہنہ مشق اور نامور سائنسدانوں، ڈاکٹرز اور محققین کو سن رہے ہیں۔ عوام میں شعور و ادراک کے بڑھنے سے یہ ماہرین تیزی سے مشہور و معروف بھی ہورہے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب لوگوں کو عقل سلیم و ہدایت عطا کرے اور ہم سب کے ایمانِ حقیقی میں اضافہ کرے۔