سندھ اسمبلی اور کورونا وائرس!

355

خواتین کی عزت اور احترام تو ویسے سب ہی کرتے ہیں اور کرنی بھی چاہیے لیکن سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی نے اسمبلی کے رواں سیشن میں بدھ کو ہونے والے اجلاس میں اس کا برملہ اظہار کرکے اسمبلی کی 30 سالہ روایت کو پس پشت ڈال دیا۔ روایت کے مطابق کسی رکن اسمبلی کا انتقال ہو جائے تو اجلاس کے پہلے دن کی کارروائی فاتحہ خوانی اور دعا کے بعد ملتوی کردی جاتی ہے۔ صوبائی وزیر و رکن اسمبلی مرتضیٰ بلوچ کی کورونا وائرس سے وفات کے بعد بھی سب ہی ارکین کو یہ یقین تھا کہ اس بار بھی ایسا ہی کچھ کیا جائے گا لیکن روایت کے مطابق ایسا نہیں کیا گیا بلکہ اسپیکر نے ایجنڈے کے مطابق خاتون رکن اسمبلی شہناز انصاری کی خالی ہونے والی نشست پر منتخب شرمیلا فاروقی کا حلف لیا، اس طرح تین دہائی کے بعد اس روایت کو خود اسپیکر اسمبلی آغا سراج درانی نے توڑ کر خواتین سے اپنی ’’محبت‘‘ کا کھل کر اظہار کیا۔ آغا سراج درانی کی عورتوں سے بے تکلفانہ دوستی کا اظہار تو سوشل میڈیا پر ان کی شرمیلا فاروقی اور دیگر کے ساتھ تصاویر سے بھی ہوچکا ہے۔ یہ تصاویر اب بھی سوشل میڈیا پر اپنا رنگ بکھیر کر اسپیکر محترم کی ’’غیر سیاسی‘‘ سرگرمیوں کا پردہ چاک کررہی ہیں۔
بہرحال بات ہورہی تھی سندھ اسمبلی کے اجلاس کی جو ملتوی نہیں کیا گیا تھا جس پر وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ جو اسپیکر کی بھی پارٹی کے سینئر لیڈر ہیں نے اجلاس میں اسمبلی کی روایت شکنی پر اپنے غصے کا اظہار کیا۔ انہوں نے شرمیلا فاروقی کے حلف لینے اور خطاب کے بعد ایوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج 30 سالہ روایت توڑ ڈالی گئی، مرتضیٰ بلوچ کے انتقال کے باعث آج کا اجلاس ملتوی کردیا جانا تھا لیکن آج ایسا نہیں کیا گیا، یہ اسمبلی کی 1973 سے روایت تھی کہ جب بھی کسی رکن کا انتقال ہوتا تو اجلاس ملتوی کردیا جاتا مرتضیٰ بلوچ ہمارے ساتھی تھے مگر ہم نے ان کے انتقال پر اپنی روایت برقرار نہیں رکھی بلکہ توڑ دی ’’مراد علی شاہ یہ جملے کہتے ہوئے آب دیدہ ہوگئے ان کی آواز بھراگئی، اسی حالت میں انہوں نے کہا کہ ’’اس کے بعد میری درخواست ہے کہ اجلاس ملتوی کردیا جائے‘‘۔ مراد علی شاہ کی درخواست پر ملتوی کردیا گیا۔ گوکہ اس اجلاس میں اسمبلی کے اپنے امور پر گفتگو کی گئی تھی۔ تاہم جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں اپوزیشن کے ارکان نصرت سحر عباسی اور حلیم عادل نے عوامی مسائل اور کورونا وائرس کے تناظر میں تقاریر کرکے عوامی حق ادا کیا۔ گرانڈ ڈیموکریٹک الائنس کی نصرت سحر نے صوبائی وزیر مرتضیٰ بلوچ کے جنازے کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سے پوچھا کہ کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے عام افراد کی میت اور جنازے تک بھی رسائی مشکل بنادی جاتی ہے مگر مرتضیٰ بلوچ کے جنازے میں ہزاروں لوگ موجود تھے جبکہ عام جاں بحق ہونے والے عام افراد کی میتیں بھی نہیں دی جاتیں، انہیں دیکھنے بھی نہیں دیا جاتا، آخر کیوں یہ دہرا میعار ہے؟ نصرت سحر نے کہا کہ وزیر صحت سرکاری اسپتالوں کی بہترین کارکردگی کے دعوے کرتی ہیں تو سوال یہ ہے کہ پھر سابق صدر آصف زرداری نجی اسپتال میں کیوں داخل ہیں، مرتضیٰ بلوچ کیوں ایک بڑے نجی اسپتال میں علاج کرا رہے تھے؟ 8 نہیں 5 ارب روپے حکومت نے کہاں خرچ کیے؟
نصرت سحر عباسی نے جو سوالات کیے وہ عام آدمی بھی حکمرانوں سے پوچھ رہا ہے مگر حکمرانوں میں وزیراعلیٰ اور دو وزراء کی زبانوں سے کورونا کے خوف پھیلانے کی اطلاعات کے سوا کچھ بھی نہیں نکلتا۔ سرکاری اسپتالوں کی حالات تو آج بھی افسوسناک اور شرمناک ہے تب ہی تو اراکین اسمبلی کے کورونا وائرس ٹیسٹ بھی آغا خان یا دیگر نجی اسپتالوں و لیبارٹریز سے کرائے جارہے ہیں۔ کراچی میں وائرس کی حساسیت کی حقیقت آپ اسپتالوں اور قرنطینہ سینٹرز کے اعدادو شمار سے لگا سکتے ہیں جو ذیل میں درج کر رہا ہوں۔
کراچی کے 7 اسپتال سندھ حکومت نے کورونا کے مریضوں کے لیے مخصوص کیے ہیں مگر ان اسپتالوں میں نہ تو ایس او پی پر عمل دیکھنے میں آرہا ہے اور نہ ہی مریضوں کا معیاری علاج کیا جارہا ہے حد تو یہ ہے کہ یہاں بعض مریض دیگر امراض کی لپیٹ میں آنے کی اطلاعات ہیں۔ جن اسپتالوں کو کورونا کے علاج کے لیے مخصوص کیا گیا ہے وہ اور وہاں کے بیڈز درج ذیل ہیں۔ سول اسپتال – 100 بیڈز اور 12 وینٹیلیٹر+ بیڈز۔ جناح اسپتال – 100 بیڈز اور 12 وینٹیلیٹر+ بیڈز۔ آغا خان اسپتال – 70 بیڈز اور 8 وینٹیلیٹر اوجھا – 50 بیڈز اور 14 وینٹیلیٹر۔ ایس-آئی- یو- ٹی – 50 بیڈز اور 10 وینٹیلیٹر، انڈس اسپتال – 26 بیڈز اور 10 وینٹیلیٹر اور 10 بیڈز۔ ضیاء الدین اسپتال – 20 بیڈز اور 10 وینٹیلیٹر + بیڈز۔ گو کہ 3 کروڑ کی آبادی کے لیے ان اسپتالوں کے ٹوٹل 200 وینٹیلیٹرز میں سے صرف 76 کورونا مریضوں کے لیے مختص ہیں اور جمعرات تک صرف 50 مریض وینٹ پر تھے جبکہ اب بھی 26 وینٹ خالی ہیں۔ واضح رہے کہ کراچی کے تمام اسپتالوں میں 541 وینٹیلیٹرز موجود ہیں۔ جو مریض وینٹیلیٹرز پر ہیں ان میں گڈاپ اسپتال میں 9 وینٹیلیٹرز تھے لیکن انہیں آپریٹ کرنے کے لیے عملہ موجود نہیں تھا لہٰذا اس کے 5 وینٹی لیٹرز انڈس اسپتال کو اور 4 سول اسپتال کو چیئریٹی کر دیے گئے اب گڈاپ اسپتال صرف ایک آئسولیشن سینٹر ہے اور اس میں 100 بیڈز ہیں اسی طرح ایکسپو سینٹر بھی آئسولیشن سینٹر ہے یہاں بھی 1200 بیڈز ہیں اور تقریباً 75 افراد موجود ہیں یہاں ان ہوشربا حقائق سے اندازہ ہو رہا ہے کہ سرکار کو معلوم ہے اس کی کیا حقیقت ہے لیکن عوام کو پھر بھی خوفزدہ کیا جارہا ہے کا تصور دیا۔ دوسری طرف 85فی صد سے زیادہ جنہیں کورونا مریض بتایا گیا ہے اپنے گھروں پر آئسولیٹ ہیں، 550 ان سات اسپتالوں میں جبکہ تقریباً 900 دوسرے سرکاری آئسولیشن سینٹر/ قرنطینہ وارڈز میں موجود ہیں، جن کا کوئی علاج معالجہ نہیں ہو رہا وہ صرف آئسولیشن میں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حکومت کورونا سے متاثرہ مریضوں کے درست اعداد و شمار کیوں نہیں بتا رہی اور کیوں زیادہ تعداد بیان کرکے لوگوں کو خوفزدہ کیا جارہا ہے؟ اہم بات یہ بھی ہے کہ حکومت ان کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ پر لوگوں کو کورونا کا مریض قرار دے رہی ہے جو غیر مستند ہیں یا جن پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ کورونا وائرس موجود ہے اس لیے احتیاط کرنی چاہیے لیکن حکومت جو احتیاطی اقدامات کررہی ہے وہ کسی لحاظ سے مناسب نہیں ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ دکھاوے کے اقدامات کرنے کے بجائے حقیقی کارروائی کرے اور لوگوں کو اس سے بچاؤ کی طرف راغب کرے۔ یہ بات سب کو بتانی چاہیے کہ یہ وائرس خطرناک نہیں ہے اور نہ ہی جان لیوا ہے بلکہ نزلہ زکام، ٹائیفائڈ، ملیریا اور دیگر امراض کی طرح کا وائرس ہے اس سے بچنا چاہیے تاکہ مزید یہ نہ پھیلے۔ دلچسپ امر یہ کہ ہمارے ملک میں کورونا کے پھیلاؤ کی رفتار کے حوالے سے اب تک کوئی تحقیق نتیجہ خیز بھی ثابت نہیں ہوسکی۔ ابھی تک یہ بھی نہیں معلوم کیا جاسکا کہ یہ وائرس کس رفتار سے کہاں تک پھیلتا ہے۔ صرف محدود معلومات کی بناء پر کیا جارہا ہے۔ وہ کورونا ٹیسٹنگ کٹس جو ناقابل بھروسا ہے اس پر یقین کرکے نتائج اخذ کیے جارہے ہیں اور انہیں خوفزدہ کیا جارہا ہے۔ کروڑوں لوگوں کا یہ ایمان کہ یہ وائرس کی شکل میں اللہ کا عذاب ہے جو اللہ اور اس کے نبی ؐ کے طریقہ کے مطابق زندگی گزارنے اور علاج کرنے اور کرانے سے ختم ہوجائے گا۔ صرف یہی درست ہے۔