بوالعزیزی سے جارج فلوئیڈ تک

348

امریکا میں سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں قتل ہونے والے سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ امریکا کی حکومت اور نظام کے لیے تیونس کے محمد بو العزیزی بنتے جا رہے۔ بوالعزیزی گلیوں میں آوازیں لگا کر سبزی فروٹ بیچنے والے انسان تھا جس نے پولیس اہلکاروں کی طرف اپنی ریڑھی اُلٹائے جانے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف خود سوزی کی تھی۔ یہ تیونس کے مطلق العنان حکمران زین العابدین بن علی کے طویل اقتدار کے خاتمے کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ہی ثابت نہیں ہوا بلکہ اس کا نتیجہ ایک عرب دنیا میںاُٹھنے والی ایک ایسی لہر کی صورت میں برآمد ہوا جس نے عرب اور افریقا کے مردان آہن کہلانے والے شخصی حکمرانوں حسنی مبارک، معمر قذافی کے تخت وتاج کو بہادیا تھا۔ امریکی میڈیا نے اس لہر کو ’’عرب بہار‘‘ کا نام دیا تھا اور اسے ان ملکوں میں جمہوریت اور شہری آزادیوں کے ایک نئے دور کا آغاز اور صبح کا طلوع قرار دے کر بھرپور سرپرستی کی تھی۔ اس لہر کو سوشل میڈیا کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ ٹویٹر، فیس بک موبائل وڈیو کلپس نے اس لہر کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
جارج فلوئیڈ کی زندگی کی آخری کہانی آخری سین آٹھ منٹ پر محیط ہے اور کیمروں نے اس منظر کو محفوظ کر لیا ہے۔ جب ایک سیاہ فام پولیس اہلکار نے جارج کو زمین پر اوندھے منہ گرایا ہے اور وہ اس کے گردن پر بیٹھ کر دبائو بڑھا رہا ہے۔ جارج کراہ رہا مجھے سانس نہیں آرہی مگر پولیس اہلکار اس کی گردن پر دبائو بڑھا رہا ہے یہاں تک وہ آخری ہچکی لیتا ہے اور یہی آخری ہچکی اس کی خلاصی کا سامان بنتی ہے۔ جارج فلوئیڈ کی یہ آٹھ منٹ کی وڈیو کسی بے حس اور ناخواندہ معاشرے میں عام ہوتی تو وہاں بھی جذبات بھڑک اُٹھے ہوتے۔ امریکا کے لوگوں کی اکثریت عام زندگی میں شہری آزادیوں اور انسانیت کی تکریم پر یقین رکھتی ہے۔ اس لیے جارج کی بے بسی کے عالم میں موت نے انہیں منقا زیر پا بنادیا ہے۔ امریکی عوام کو یہ احساس ہوا کہ یہ وہ ریاست اور اس کی پولیس ہے جو عوام کے ٹیکسوں سے وصولی کرتی ہے اور اس کا مقصد عوام کے جان ومال کا تحفظ ہوتا ہے۔ اس احساس نے جارج کی موت پر امریکیوں کو سراپا احتجاج بنا دیا ہے۔ اس احتجاج میں کالے اور بائیں بازو کے کچھ گورے اور ایشیائی افراد سب شریک ہیں یہ اس معاشرے کی زندہ ضمیر ہے کہ سفید فام لوگ محض نسل پرستی کا شکار ہو کر پولیس اہلکار کی حمایت میں گھروں میں دبکے ہوئے نہیں بلکہ وہ مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔ جارج فلوئیڈ کا اگر کوئی جرم تھا تو پولیس کے جبر نے اسے چھپا دیا ہے اور اب اس کی مظلومیت ہی پورے افسانے پر حاوی ہو گئی ہے۔ رنگ ونسل سے بالاتر ہو کر امریکی اس کی تصویروں کے آگے پھولوں کے ڈھیر لگا رہے ہیں۔ امریکیوں کے مظاہرے کئی ریاستوں تک پھیل گئے ہیں۔ ہزاروں افراد اس واقعے کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ پولیس پر پتھر اور بوتلیں پھینکی جا رہی ہیں پولیس کی گاڑیاں نذر آتش کی جا رہی ہیں۔
وائس آف امریکا نے اسے 1966 میں ویت نام جنگ کی توسیع کے خلاف امریکیوں کے احتجاج سے تشبیہ دی ہے۔ ویت نام جنگ کے خلاف عوامی غیظ وغضب نے امریکی انتظامیہ کو لاحاصل مشق سے الگ ہونے پر مجبور کیا تھا۔ آج امریکا میں دکھائی دینے والے یہ وہ مناظر ہیں جو تیسری دنیا کا مقدر بنا دیے گئے تھے۔ جہاں غربت افلاس، ناخواندگی، معاشری اور ریاستی جبر کا شکار عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ہر شے کو خس وخاک کی مانند بہا ڈالنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ اصل واقعہ اپنی جگہ رہتا ہے اور اس کی کوکھ سے نئے واقعات جنم لے کر پورے ماحول کو ڈھانپ دیتے ہیں۔ امریکا کے شہری احتجاج کے دوران کرفیو سے آشنا ہو رہے ہیں۔ پولیس اور فوج گشت کر رہی ہے اور عوام کو گھروں سے نکل کر کھلے مقامات پر مجتمع ہونے کی اجازت نہیں۔ کورونا نے امریکیوں کو لاک ڈائون کی اصطلاح کے معانی اور مفاہیم سمجھا دیے تھے تو جارج فلوئیڈ کا قتل انہیں کرفیو، پکڑ دھکڑ، ہتھکڑوں، زنجیروں، آنسو گیس اور لاٹھی ڈنڈوں سے آشنا کر رہا ہے۔ ریاست عوامی اشتعال سے اور عوام ریاستی کے آہنی ہاتھوں کا سامنا کررہے ہیں۔ مظاہرین اس قدر بپھرے ہوئے ہیں کہ وائٹ ہائوس کی طرف بار بار مارچ کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مظاہرین کے ارادے بھانپ کر پہلے ہی انہیں کہا تھا کہ وائٹ ہائوس کی طرف بڑھنے والے جان لیں ان کا واسطہ خوں خوار کتوں اور نشانہ باز اہلکاروں سے پڑ سکتا ہے۔
جھوم کے اُٹھنے والے طوفان دھمکیوں سے نہیں رکتے نہیں۔ مظاہرین اپنے عزم وارادے سے باز تو نہیں آئے مگر صدر ٹرمپ دھمکی دینے کے بعد مظاہرین کے خوف سے وائٹ ہائوس کے زیر زمین بنکر میں منتقل ہو گئے ہیں۔ یہ اس طرح کے انقلابات ہیں جن کو برپا کرنے کے لیے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے مشہور ہوا کرتی تھی۔ دنیا میں جہاں کوئی حکمران ناپسندیدہ یا بوجھ قرار پاتا امریکا کے ساتھ مفادات کا ٹکرائو کی زد میں آتا تو پھر سی آئی اے رائی کا پہاڑ بنانے کی کاریگری کے ساتھ میدان میں آجاتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے معمولی سی پھنسی، پھوڑا اور پھر ناسور میں بدل جاتی۔ عوامی جذبات کو بھڑکا کر سی آئی اے کے برپا کردہ انقلابات کی حالیہ مثال عرب بہار ہے۔ جس میں افریقا اور عرب کے چٹان دکھنے والے حکمران تنکوں کی مانند بہہ کر رہ گئے تھے۔ گزشتہ دہائی کے اوائل میں جارجیا کا ایسا ہی مصنوعی انقلاب پوری دنیا نے ٹی وی پر لائیو دیکھا تھا جب جارجین صدر ایڈورڈز شیورڈ ناڈزے کو محل کے پچھلے دروازے سے فرار ہونا پڑا تھا کیونکہ محل کے باہر ہجوم ان کے استعفے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ امریکی میڈیا نمک مرچ لگا کر احتجاج کی کہانیاں بیان کرتا۔ حکمران اپنے بچائو کے لیے مظاہرین پر طاقت کا استعمال کرتے تو یہی میڈیا شہری آزادیوں اور اظہار رائے کے حق کا ڈھول پیٹنا شروع کرتا اور یہ رویے صرف دنیا میں ان مقامات کے لیے مخصوص ہوتے جہاں پوشیدہ امریکا مفادات کا کھیل چل رہا ہوتا۔ اس کے سوا کسی دوسری جگہ آزادی اظہار اور شہری آزادیوں پر امریکا کا ایک ہی رویہ ہوتا تھا ’’ہماری بلاسے‘‘۔ احتجاج جب پوری طرح دہک اُٹھتا تو اسے ایک خوبصورت نام دیا جاتا اور حکمران کا تختہ اُلٹ جاتا تو اسے انقلاب کہا جاتا۔ عرب بہار کے بعد تو حد ہوئی کہ عرب دنیا کے جس حصے میں یہ بغاوتیں کامیاب ہوئیں وہاں لیبیا کی طرح سول اسٹرکچر بکھر کر رہ گیا اور خانہ جنگی نے مستقل ڈیرے ڈال دیے۔ جہاں مصر کی طرح جمہوریت کا سورج طلوع ہو اسے بھی سال بعد ہی جبراً غروب کر کے ایک نئی آمریت کے قیام میں بالواسطہ مدد دی گئی۔ آج امریکا تیونس، مصر، لیبیا کا منظر پیش کر رہا ہے اور یہ مکافات عمل ہے۔ امریکا نے دنیا میں جو بویا ہے وہ اسے کاٹنا پڑ رہا ہے۔