پتھر دل انسانوں کا بجٹ ! کس کام کا ہے؟

212

قاضی جاوید
jasarat.qazijavaid@gmail.com
مالی سال 21-2020 کے بجٹ کی تیاری آخری مراحل میں داخل ہو گئی، بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، سیاسی طور پر حکومت اسے عوامی امنگوں کے مطابق قرار دیتی ہے، اپوزیشن تنقید کرتی ہے لیکن عوام کی سنیں تو وہ بجٹ کو جمع تفریق کا کھیل ہی کہتے ہیں۔آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں زور و شروع سے جاری، اسمبلیوں میں لمبی چوڑی تقریریں ہوں گی، بڑی بڑی کتابیں پیش ہوں گی۔ کورونا کے سامنے بے بس عوام بھی یہ سب کچھ دیکھیں اور سنیں گے۔ حکومت ہر سال جون میں بجٹ پیش کرنے کا آئینی تقاضا پورا کرتی ہے۔ عوام بجٹ میںدو وقت کی روٹی کی آسانی دیکھیں گے۔عوام کا کہنا ہے کہ حکمران ہمارے ساتھ بجٹ بجٹ کا کھیل برسوں سے کھیل رہے ہیں۔ امید ہے کوئی بجٹ ایسا ہوگا جس میں زندگی میں آسانی کا پیغام ہو۔پتھر دل انسانوں کا بجٹ آنے والا ہے آٹا، چینی، گھی سب کچھ سال بھر مہنگا ہوتا ہے، بجٹ کس کام کا ہے۔حکومت اور اپوزیشن دونوں عوام کے غم میں ڈوبے نظر آتے ہیں لیکن عوام کی مشکلات کم ہونے میں نہیں آتیں۔
ذرائع کے مطابق موجودہ حالات میں آئندہ مالی سال کے لیے دفاعی بجٹ میں کمی مشکل ہے جب کہ آئندہ مالی سال کے دوران حکومتی اخراجات کو کم سے کم رکھا جائے گا۔ بجٹ 2020-2021ء میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا اور سود کی ادائیگیوں کے بجٹ کو کم نہیں کیا جائے گا آئندہ مالی سال کے دوران ٹیکس آمدن میں اضافہ مشکل ہے جب کہ اگلے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں معمولی اضافہ ممکن ہے۔بجٹ میں ٹارگٹڈ سبسڈیز دی جائیں گی۔خیال رہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی بجٹ 12 جون کو پیش کیے جانے کا امکان ہے۔بجٹ میں تاجر اپنے کاروبار کے فائدے کی بات ڈھونڈیں گے اس سلسلے میں تاجر برادری کیا کہنا ہے اس بھی جائیزہ لیتے ہیں
سابق صدر ،فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور سیکرٹری جنرل یونائٹیڈ بزنس گروپ(یو بی جی)زبیرطفیل نے کہا کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں بے روزگاری کی ایک بڑی لہر آنے کا خدشہ ہے، ملک کی بڑی صنعتیں بھی بندش کا شکار ہیں، پیداواری عمل رْکنے کے سبب بے روزگاری بڑھ رہی ہے جبکہ حکومتی آمدنی میں کمی بھی خاطر خواہ واقع ہورہی ہے۔ آٹو موبائل، ٹیکسٹائل جیسی تمام بڑی صنعتیں کام نہیں کر پا رہی ہیں جس کے سبب حکومت کو ٹیکس وصول نہیں ہو رہا ہے،پاکستان کی ٹیکس آمدن مسلسل کم ہورہی ہے اور پاکستان کا ٹیکس آمدنی کا ہدف ساڑھے 55 کھرب روپے تھا لیکن اب خدشہ ہے کہ یہ 40 کھرب کے قریب وصول ہوگا، ان حالات میں حکومت کے لیے ایک متوازن بجٹ تیار کرنا مشکل امر دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے آئندہ مالی سال 2020-21 کے وفاقی بجٹ کے حوالے سے کہا کہ حکومت نے کورونا سے متاثرہ افراد کے لیے 12کھرب کا ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے لیکن یہ پیسے کہاں سے آئیں گے، حکومت اس کے لیے مزید قرض لے گی یا نوٹ چھاپے گی جس کا اثر افراط زر پرمنفی پڑے گا، حکومت مثبت پالیسی کے ذریعے عوام کو ریلیف مہیا کرے، عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک بھرپور اندازمیں پہنچایا جائے، بجلی کی قیمتوں میںکمی کی جائے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں انتہائی حد تک کمی ہوئی ہے اس لیے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کو یقینی بنایا جائے، اس سے مہنگائی میں کافی کمی واقع ہو سکتی ہے اور عوام کی قوت خرید میں اضافہ کیا جا سکتا ہے،بجٹ میں صنعتوں کے لیے مراعات کا اعلان کیا جائے۔زبیرطفیل نے کہا کہ پاکستان کے قرضے گزشتہ دو برسوں میں تیزی سے بڑھے ہیں اور ان کی ادائیگی وقت کے ساتھ ساتھ مشکل تر ہوتی جا رہی تھی تاہم کورونا کے سبب ہمارے بیرونی قرضے ری شیڈول کیے جا رہے ہیں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور دیگر اداروں نے پاکستان کے قرضوں کی ادائیگی میں ایک سال کی مہلت دی ہے۔ اس سے پاکستان پر سے وقتی دبائو ہٹ جائے گا کیونکہ بجٹ میں ایک بڑا امائونٹ قرضوں کی ادائیگی میں جاتا ہے اور اس برس اندازہ تھا کہ یہ رقم مجموعی آمدنی کے تقریباً برابر ہوگی۔
چیئرمین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کراچی اور ملک کے ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا ہے کہ حکومت نئے مالی سال کا بجٹ عوام دوست اور خودانحصاری پر مبنی بنائے،عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد کہاتھا کہ عدل پر مبنی ٹیکسوں کی پالیسی100دن میں نافذ کردیں گے،اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور طاقتور طبقوں کو نوازتے رہے اور ایمنسٹی آتی رہیں،معیشت کو دستاویزی نہیں بنایاگیا تو پھر ان کی حکومت میں بھی بہتری نہیں آئے گی، حکومت آئندہ بجٹ میں امپورٹ کی دل شکنی کرے، ڈیوٹیز میں کوئی کمی نہ کرے لیکن جی ایس ٹی اورپیٹرولیم لیوی کو ختم کرنا چاہیے،ڈائریکٹ ٹیکسز پر انحصار کیا جائے ،ان ڈائریکٹ ٹیکسز کو کم کیا جائے،پیداواری لاگت کم کی جائے،خودانحصاری پر مبنی پالیسیاں مرتب کرکے ٹیکسوں کا منصفانہ نظام اپنایاجائے،مائیکروفنانس کے تحت غریبوں کوقرضے دیے جائیں اور اگر عمران خان ایسا کرلیں تو ستمبر2020 کے بعد پاکستان میں بہتری آنا شروع ہوجائے گی۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار نئے مالی سال 2020-21کے وفاقی بجٹ کے حوالے سے گفتگو میںاپنی تجاویزپیش کرتے ہوئے کیا۔ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ نئے مالی سال کاوفاقی بجٹ ایسے موقع پر پیش کیا جارہا ہے کہ جب مالی سال2019 میں پاکستان کی معیشت کی شرح نمو1.9فیصد رہی،یہ پاکستان کی60سالہ تاریخ میں پانچویں بدترین شرح نمو ہے اور یہ شرح نمو وزیراعظم عمران خان کی پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سال میں حاصل ہوئی حالانکہ عمران خان کو ورثہ میں مالی سال 2017میں 5.2 فیصد اور مالی سال2018میں 5.5فیصد تھی،سال2020میں کورونا وائرس کے آنے سے پہلے فروری2020تک اس سال کی متوقع شرح نمو2فیصد سے2.4فیصد کے درمیان تھی،عمران خان حکومت کے دوسرے معاشی سال میںعالمی بینک کا یہ کہنا تھا کہ اس سال پاکستان کی معیشت کی شرح نمو بھارت،بنگلا دیش،سری لنکا،بھوٹان،نیپال اور مالدیپ سے کم رہے گی،اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی شرح نمو منفی0.4 فیصد رہے گی۔آئی ایم ایف کا یہ کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال2021میں پاکستان کی شرح نمو2فیصد رہے گی جبکہ بھارت کی شرح نمو 7.4فیصد رہے گی،ہمیں 2فیصد کی شرح نمو قابل قبول نہیں ہونی چاہیے اور کوئی اسٹریٹیجی بنانے کی ضرورت ہوگی۔ان کاکہنا تھا کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (صنعتوں کی بڑے پیمانے پراشیاء سازی) کی شرح 2019میں بھی منفی تھی اورفروری2020 میں بھی منفی رہی تھی،پاکستان میںقرضوں میں انتہائی تیز رفتاری کا ساتھ اضافہ ہوا ہے، موجودہ حکومت کے پہلے مالی سال2019 میں ٹیکسوں کی وصولی حیران کن طور پر بڑے ٹیکس لگانے کے باوجود مالی سال 2018 سے کم رہی اور یہ بڑی ناکامی تھی کیونکہ موجودہ حکومت ٹیکسوں کی وصولی بڑھانے کے نام پر اقتدار میں آئی تھی لیکن ٹیکس کی چوری بڑھ گئی اور عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ تعلیم،صحت اور ترقیاتی اخراجات میں کم رقوم مختص کرنے اور کٹوتی کرنے کے باوجودبجٹ خسارہ فروری سے پہلے متوقع تھا جو 9فیصد سے زیادہ رہے گا،اس صورتحال کے نتیجے میں غربت اور بے روزگاری بھی بڑھی اور روپے کی قدر تیزی سے کم ہوئی،موجودہ حکومت کو فی ڈالر124.20روپے پر ملا تھا لیکن غیرضروری حد تک روپے کی قدر گرائی گئی جس کے منفی اثرات مرتب ہوئے، جو معیشت تباہ ہوئی اس میں اس بات کا بھی دخل تھاکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے پہلے تو غیرضروری طورپر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں تاخیرکی حالانکہ وہ فیصلہ کرچکے تھے مگر قوم کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ آئی ایم ایف کے بغیرگزارہ کرنا چاہتے ہیں ،یہ ممکن ضرورتھا مگر اس کے لیے جو حکمت عملی کی ضرورت تھی اسے نہیں اپنایا گیا، تاہم جب آئی ایم ایف کے پاس تاخیر سے گئے بھی تو آئی ایم ایف کے ساتھ جو شرائط طے کیں ان پر آئی ایم ایف سے موجودہ حکومت نے غلط طریقے سے مذاکرات کیے،مذاکراتی ٹیم کا سیکرٹری خزانہ ایک اہم ترین رکن ہوتا ہے اس نے آخر میں منع کردیا کہ مجھے بولنے نہیں دیا جارہا تو میں ان مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گا، آئی ایم ایف سے مذاکرات میں جن دوصاحبان نے شرائط منظور کی تھیں ان میں چند روز پہلے ہی پاکستان آنے والے عبدالحفیظ شیخ اور دوسرے آئی ایم ایف سے لائے گئے گورنر اسٹیٹ بینک تھے،ان دونوں نے آئی ایم ایف سے سارے فیصلے کیے جو غلط تھے جس سے پاکستان کو نقصان ہوا،
ایف پی سی سی آئی کے سابق چیئر مین قائمہ کمیٹی و بزنس مین پینل کے سیکرٹری جرنل (فیڈرل) احمد جواد نے کہا ہے کہ 25ایکڑ سے زائد زمینداروں پر اِنکم ٹیکس لازمی قرار دینا چاہیے ، رہنماوفاقی چیمبر آنے والے بجٹ میں اگر آئی ایم ایف کے کہنے پر 800 ارب کے نئے ٹیکس لگے تو معیشت کا جنازہ نکل جائے گا۔ انہوں نے کہا25 ایکڑ سے زائد زمینداروں پر اِنکم ٹیکس لازمی قرار دینا چاہیے تاکہ ٹیکس آمدن میں اضافہ ہو آنے والے مالی سال میں، اس کے ساتھ ساتھ حکومتی خرچوں میں واضح کمی واقع ہونی چاہیے۔ وفاقی حکومت نے تین ہزار ارب روپے سے زائد مالیت کے خسارے پر مشتمل آئندہ مالی سال 2020-21کے لیے مجموعی طور پر 7 ہزار 5 سو 70 ارب روپے کے لگ بھگ حجم کے وفاقی بجٹ کا مسودہ تیار کرلیا ہے۔دوسری طرف حکومت پاکستان اگلے مالی سال کے دوران15ارب ڈالرمزید قرضہ لینے کا منصوبہ بنا رہی ہے جس میں سے10ارب ڈالر سے پرانے قرضے اتارے جبکہ باقی رقم سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھا جائے گا۔احمد جواد کا کہنا ہے کہ اگرحکومت 15ارب ڈالر قرضوں کا انتظام کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ ملکی تاریخ میں کسی بھی ایک مالی سال میں لیے گئے قرضے کی سب سے بڑی مالیت ہوگی اورملک قرضوں کے مزید بوجھ تلے دب جائے گا۔
سابق چیئر مین یونائیٹڈ بزنس گروپ (سندھ ریجن) شیخ خالد تواب نے آئندہ وفاقی بجٹ 2020-21 میں ٹیرف کوحقائق کے مطابق بنانے کی ضرورت پر زور دیتے اور پاکستان میں ٹیرف کے ڈھانچے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ عام طور پر ٹیرف صرف پاکستان میں درآمدات پر قابو پانے اور گھریلو صنعت کی حفاظت کے بجائے محصولات جمع کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں جبکہ عالمی سطح پر ٹیرف کا مقصد درآمدات کو کم کرنا ، گھریلو صنعت کی حفاظت ، مسابقت کو بہتر بنانا ، ملازمت کو بہتر بنانا ، سرمایہ کاری کو راغب کرنا اور ادائیگی کے توازن کو بہتر بناناہے۔ عمومی طور پر پاکستان میں کسٹم ڈیوٹی محصول اور درآمد میں اضافے کے درمیان ایک مثبت رشتہ ہے۔شیخ خالد تواب نے مزید بتایا کہ متعدد ٹیکسوں ، مراعاتی ایس آر اوز اور مختلف قسم کے ریگولیٹری ڈیوٹیز کی وجہ سے پاکستان میں ٹیرف کا ڈھانچہ بہت پیچیدہ ہے جس سے انڈرانوائسنگ ، اسمگلنگ اورمس ڈیکلریشن دکو فروغ ملتا ہے جس سے مینوفیکچرنگ سیکٹر متاثر ہوتے ہیں اور سرمایہ کاری میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ زائد درآمدی ٹیرف سے روزگار کی راہ میں متعدد بگاڑ پیدا کردیئے گئے ہیں اور کاروبار کرنے کی لاگت میں اضافہ کرکے مینوفیکچرنگ سیکٹر کی مسابقت کو متاثر کیاگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر صنعت کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا جانا چاہیے اور بیس لائن مٹیریلز اور خام مال کے لیے زیروفیصد سے شروع ہونے والے سیکٹرز کومعیاری ٹیرف سلیب کو شامل کیا جائے ،ری ایکسپورٹ کے لیے ویئرہائوسنگ کی سہولت دی جائے تاکہ وہی مال دوبارہ دوسرے ممالک میں جاسکے ،سیمی فنشڈ پروڈکٹس کے لیے ڈیوٹی 5 سے 10فیصد اور باقی تمام اشیاء پرزیادہ سے زیادہ ڈیوٹی 20 فیصد کی جائے۔ اس کے علاوہ صنعتی صارفین اور تجارتی درآمد کنندگان کے لیے ڈیوٹی اور ٹیکسز کی شرحیں یکساں کی جائیں تاکہ سہولیات کے غلط استعمال کو دور کیا جاسکے۔ خالدتواب نے مزید کہا کہ نئے مالی سال 2020-21کے وفاقی بجٹ میں مختلف سیکٹرز کو فائدہ پہنچانے کے لیے جاری کردہ ایس آر اوز کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
بجٹ سے پہلے اور بجٹ کے بعد !آٹا، چینی، گھی،اشیاء ضروریہ سال بھر مہنگا ہوگا، بجٹ کس کام کا ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر شاہد حسن نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں جن دوصاحبان نے شرائط منظور کی تھیں ان میں چند روز پہلے ہی پاکستان آنے والے عبدالحفیظ شیخ اور دوسرے آئی ایم ایف کے گورنر اسٹیٹ بینک تھے۔آئی ایم ایف سے مذاکرات میںیہ بھی طے ہو تھا کہ پاکستان اسٹیل کو نہیں چلانا اور اس کو بند کر نا ہے جس کی تیاری عبدالحفیظ شیخ کے 2014ء کے بجٹ میں کر لی گئی تھی ، عبدالحفیظ شیخ نے 2014ء کے بجٹ میں پاکستان اسٹیل کی بندش کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے جاری ہو نے والا فنڈ بند کر دیا تھا ۔جس کے بعد پاکستان اسٹیل کی پیداواری صلاحیت رفتہ رفتہ ختم ہو تی رہی اور سابق نواز حکومت کے دور میں 10جون 2015ء کو ادارے کو بند کر دیا گیا۔