اور اب پیٹرول اور گندم کا بحران

350

ملک میں چینی کی قیمتیں جو بڑھی تھیں وہ کم ہونے میں نہیں آرہیں۔ عوام کی جیبوںپر اربوں روپے کا ڈاکا ڈالنے والے آزاد پھر رہے ہیں۔ اہم کردار جہانگیر ترین آرام سے ٹہلتے ہوئے ملک سے باہر چلے گئے۔ ان کا نام تو ای سی ایل میں ہونا چاہیے تھا۔ بہرحال انہوں نے اطمینان دلایا ہے کہ وہ لندن میں اپنا طبی معائنہ کرانے کے بعد واپس آجائیں گے۔ میاں نواز شریف بھی اپنے علاج کے لیے لندن میں ہیں جس پر پوری تحریک انصاف نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے جیسے یہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہو۔ عوام کے جو اصل مسائل ہیں ان پر کوئی توجہ نہیں۔ چینی کے بحران کے بعد اب گندم کا بحران پیدا کر دیا گیا ہے اور گندم نہ صرف روز بروز مہنگی ہو رہی ہے بلکہ کئی شہروں میں اس کی دستیابی مشکل ہو گئی ہے۔ فلور ملوں کو گندم کی فراہمی میں کمی کا سامنا ہے۔ چنانچہ آٹے کی قیمت بڑھ گئی اور نانبائیوں نے روٹی کی قیمت بڑھا دی۔ اسی کے ساتھ مختلف فلور ملوں پر چھاپے مار کر گندم برآمد کی جا رہی ہے۔ فلور مل مالکان کا کہنا ہے کہ جتنی گندم اسٹور کرنے کی اجازت ہے وہ بھی ضبط کی جا رہی ہے۔ آٹا عوام کی بنیادی ضرورت ہے وہ بھی نہیں مل رہا۔ علاوہ ازیں اب ملک میں پیٹرول کی قلت بھی پیدا کر دی گئی ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ پیٹرول کی قیمت میں کمی کے فوائد عوام تک پہنچنے چاہییں لیکن یہاں تو پیٹرول ہی نہیں پہنچ رہا۔ آئل کمپنیاں قیمت کم ہونے پر خوش نہیں اور پیٹرول کی قلت پیدا کرکے قیمت بڑھانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ یہ صریحاً بلیک میلنگ ہے لیکن کمزور حکومتیں ہتھیار ڈالنے میں دیر نہیں کرتیں۔ صورتحال یہ ہے کہ کراچی اور لاہور سمیت کئی شہروں میں مارکیٹنگ کمپنیوں کے ملکیتی پمپس بند ہیں۔ شہری اور ٹرانسپورٹرز پیٹرول کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ترجمان پیٹرولیم ڈویژن کا کہنا ہے کہ نجی کمپنیوں نے زیادہ منافع کے لیے بحران پیدا کیا۔ لیکن یہ کوئی راز کی بات تو نہیں۔ چینی اور گندم کا بحران بھی منافع خوروں کا پیدا کردہ ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو اور ذمے دار کوئی بھی ہو الزام تو حکومت ہی پر آئے گا جس نے ہر معاملے میں نااہلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کچھ بھی تو قابو میں نہیں آرہا۔ عمران خان گزشتہ دنوں اپنے ترجمانوں کو لے کر بیٹھے تھے جن کی تعداد شاید درجنوں میں ہو۔ ظاہر ہے کہ انہیں یہی درس دیا گیا ہوگا کہ حزب اختلاف کے رہنمائوں پر جتنا کیچڑ اچھالا جا سکے، اچھالا جائے۔ گو کہ وہ سب کے سب اسی کام میں جی جان سے لگے ہوئے ہیں۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ بڑی سرکار کس بات سے خوش ہوتی ہے۔ ترجمان تو اب ہاتھ بھی چھوڑنے لگے ہیں۔ فواد چودھری کے بعد ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے۔ اب تو جناب شبلی فراز بھی فردوس عاشق کی زبان بولنے لگے ہیں۔ وزیراعظم کے بقول اب کورونا ہی کے ساتھ رہنا ہے اور بقول شیخ رشید، عمران خان ہی کے ساتھ رہنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اتنی احتیاط ضرور کریں کہ بیان بازی کم کر دیں اور اس کا خصوصی اہتمام کریں کہ وڈیو نہ بننے پائے۔ عوام کو اس کا انتظار ہے کہ چینی اور گندم پر ڈاکا ڈالنے والوں کا کیا حشر ہوتا ہے۔ غیر سرکاری ترجمان شیخ رشید تو کہتے ہیں کہ کوئی بچ کر نہیں جائے گا۔ لیکن شاید پہلے حزب اختلاف سے نمٹ لیا جائے، اپنے تو اپنے ہی ہیں، کہیں نہیں جا رہے۔