کورونا اور دوعملی

437

کورونا خود ایک مسئلہ ہے جس سے لوگ متاثر بھی ہورہے ہیں اور جان سے بھی جارہے ہیں ۔ تاہم اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں اور انتظامیہ نے جو طریقہ کار اختیار کیا ، اس نے کورونا کے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے ۔ ایک طرف وزیر اعظم کے معاون خصوصی ظفر مرزا بتاتے ہیں کہ اسپتالوں میں وسائل کی کمی نہیں ہے بلکہ انتظامی معاملات کے باعث مسائل کا سامنا ہے ۔ انہوں نے کہا ہے اسپتال حکومت کے دیے گئے وسائل تقسیم نہیں کررہے اور دوسری وجہ وسائل کی تقسیم کا غیر معقول انتظام ہے ۔ دوسری جانب زمینی حقائق یہ ہیں کہ اسپتالوں کی انتظامیہ نے اپنے اسپتالوں کے باہر بینر لکھ کر لگادیے ہیں کہ ان کے پاس کورونا کے مریضوں کے لیے مزید جگہ نہیں ہے ۔ یہ وہ اسپتال ہیں ، جنہوں نے حکومت سے اربوں روپے کے فنڈ کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے پیشگی وصول کرلیے ہیں ۔ صرف ضیاء الدین اسپتال کو ہی کورونا کے دو سو مریضوں کے علاج کی رقم پیشگی ادا کردی گئی ہے ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ یہ ساری رقم کہاں گئی اور مریضوں کو کیوں واپس کیا جارہا ہے ۔ ایک معاصر اخبار میں اتوار کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ڈھائی کروڑ سے زاید آبادی والے شہر کراچی میں کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے صرف صرف 498 بستر دستیاب ہیں ۔ انڈس اسپتال ، جس میں ایک بینر کے ذریعے کورونا کے مریضوں سے معذرت کی گئی ہے ، وہاں پر کورونا کے مریضوں کے لیے صرف 15 وینٹی لیٹر اور ایچ ڈی یو وارڈ میں صرف 13 بیڈ دستیاب ہیں ۔ اسی رپورٹ کے مطابق کراچی کے اسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لیے مختص 268 بستر ابھی بھی خالی ہیں مگر اسپتال انتظامیہ کورونا کے مریضوں کو داخل کرنے پر تیار نہیں ہے ۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب حکومت سندھ اور وفاقی حکومت ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا پسندیدہ کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونا زبردستی پھیلایا گیا ہے جس کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے ۔ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کی سندھ حکومت کی کوششوں کو سبوتاژ کیا گیا جبکہ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اشرافیہ لاک ڈاؤن چاہتی ہے جس کا مطلب معیشت کی تباہی ہے ۔ چاہے وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت دونوں میں سے کوئی یہ بتانے پر تیار نہیں ہے کہ پاکستان میں کورونا کی تشخیص کو سو دن سے زاید مدت گزرنے اور کئی سو ارب روپے خرچ کرنے کے بجائے ابھی تک ملک میں طبی سہولتوں میں مطلوبہ اضافہ کیوں نہیں کیا گیا ۔ یہ کئی سو ارب روپے کے فنڈز کس بلیک ہول میں چلے گئے ۔ کورونا کے نام پر کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے نتائج کا اندازہ کیوں نہیں لگایا گیا ۔ ایک دفعہ ہی 14 دن کا موثر لاک ڈاؤن کرکے ملکی معیشت کا پہیہ کیوں نہیں چلنے دیا گیا ۔ چند صنعتیں اور بازار کھول دیے گئے مگر دیگر صنعتوں اور کاروباری اداروں کو کیوں نہیں کھلنے دیا گیا ۔ اسے احمقانہ طرز عمل ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ ہفتے میں پانچ دن بازار کھلنے اور صنعتوں کا پہیہ گھومنے سے کورونا نہیں پھیلے گا مگر سنیچر اور اتوار کو کاروبار کرنے سے کورونا پھیل جائے گا ۔ یہ سوال تو ابھی تک موجود ہے کہ کورونا ایک بیماری ہے تو اسے بیماری کے طور پر کیوں نہیں لیا گیا اور اس سے لوگوں کو خوفزدہ کیوں کیا گیا ۔ پہلے کہا گیا کہ مردہ افراد سے بھی کورونا پھیل جائے گا اور یوں میتیں مرحومین کے لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے خیراتی اداروں کے ذریعے ان کی تدفین کی گئی ۔ تدفین کا جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اس میں لاشوں کی بے حرمتی بھی ہوتی تھی اور لواحقین کی دل آزاری بھی ۔ پھر کہا گیا کہ وہ طریقہ کار غلط تھا ۔ اسی طرح کہا گیا کہ ہر سطح سے کورونا پھیلتا ہے اور پھر کہا گیا کہ کسی بھی سطح پر کورونا زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتا ۔ اب ایک طرف وفاقی وزیر منصوبہ بندی و مراعات اسد عمر بتارہے ہیں کہ پاکستان میں کورونا اتنا مہلک نہیں جتنا یورپ اور دیگر ممالک میں رہا دوسری جانب وفاق کے ہی ایک اور نمائندے وفاقی وزیر انسداد منشیات اعظم سواتی کہتے ہیں کہ ہم دوبارہ سخت لاک ڈاؤن کی طرف جارہے ہیں ۔ جب حکومت کے اپنے ہی وزراء ایک صفحے پر نہ ہوں ، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کی مخالف ہوں تو عوام میں کنفیوژن ہی پھیلے گا ۔ اس کا نتیجہ صرف اور صرف خوف کی صورت میں ہی نکلتا ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کورونا کے نام پر ایک دوسرے کی مخالف ضرور ہیں مگر کورونا کے نام پر فنڈز کے حسابات نہ دینے پر دونوں ہی متفق ہیں ۔ کوئی اس کا جواب دینے پر راضی نہیں ہے کہ طبی سہولتوں کو بہتر کیوں نہیں کیا گیا ، مطلوبہ تعداد میں وینٹی لیٹرز اور دیگر ضروری طبی آلات مہیا کیوں نہیں کیے گئے ، گھوسٹ قرنطینہ مراکز کس کھاتے میں کھولے گئے اور ان کا ذمہ دار کون ہے ۔