سچ کیا ہے؟ کوئی تو سامنے لائے

312

ایک بحث چھڑچکی ہے کہ ایٹمی دھماکا کس نے کیا‘ سادہ سا جواب ہے‘ یہ دھماکا پاکستان نے کیا‘ بھارت کے مقابلے میں پاکستان نے جواب میں پانچ دھماکے کیے‘ الحمدللہ‘ آج بھی پاکستان کے اس فیصلے پر ہمیں فخر ہے‘ اب سوال یہ ہے کہ آخر یہ بات بحث کا موضوع ہی کیوں بنی کہ دھماکا کس نے کیا یہ ایک ایسی بحث جس کا کوئی فائدہ نہیں‘ بحث کا ویسے بھی کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا‘ لیکن یہ بحث اس لیے چھڑی کہ تحریک انصاف کی حکومت خاموش رہی‘ یہ خاموشی تعصب کی علامت ہے‘ اگر تعصب ہی برتنا ہے تو سبق حاصل کرنے کے لیے ہمیں سقوط ڈھاکا کبھی نہیں بھولنا چاہیے تھا مگر ہم نے کیا کیا؟ یحییٰ خان اور عبداللہ خان نیازی قومی پرچم میں دفنائے گئے‘ بھٹو ملک کے وزیر اعظم بنائے گئے‘ قوم زندہ ہوتی تو یہ تینوں ایک ہی صف میں کھڑے کیے جاتے‘ اور صف کا فیصلہ بھی قوم سے لیا جاتا تو قوم انہیں ہمیشہ کے لیے انہیں نشان عبرت بنا دیتی۔ سقوط ڈھاکا کے بعد نئے انتخابات ہوتے تو زخمی قوم سانحہ مشرقی پاکستان کے ہر کردار کو بے نقاب کردیتی۔
سقوط ڈھاکا ہمارے لیے عبرت ہے اور ایٹمی دھماکا ایک روشن محفوظ مستقبل کی کرن۔ قیام پاکستان کے بعد ایٹمی دھماکا‘ اس ملک کی سلامتی‘ تحفظ اور جرأت کی سب سے بڑی علامت ہے‘ ایٹم بم کی تیاری میں جس جس نے بھی جو بھی کردار ادا کیا‘ وہ ہمارا قومی ہیرو ہے‘ اگر ایٹم بم تیار کرنے والے خاموشی سے اپنا کام نہ کرتے تو یہ اہم سنگ میل کبھی حاصل نہ ہوتا‘ ان کی خاموشی نے ہمیں زندگی دی‘ کوئی لاکھ اور کروڑوں کروٹیں بھی بدل لے‘ ملکی تاریخ سے یہ باب نہیں نکال سکتا کہ ایٹمی بم کا دھماکا اس وقت ہوا جب ملک میں نواز شریف وزیر اعظم تھے اور ایٹمی دھماکے کی خوشخبری بھی انہوں نے ہی ٹی وی پر قوم سے خطاب کے دوران دی‘ قومی اور ملی یک جہتی کا تقاضا ہے کہ ملک میں قائم ہر حکومت اس اہم کامیابی کو اپنی سرپرستی مہیا کرے‘ ایٹمی دھماکا ایک ایک ایسا موضوع ہے اور رہے گا‘ بلکہ رہنا چاہیے کہ جس ہے ہم یک جہتی کی تصویر بن جائیں‘ ایٹمی دھماکے کی بیسویں سالگرہ پر کیوں اسے بحث کا موضوع بنایا گیا‘ ایٹم بم بنانے والوں نے جس طرح خاموش رہے سیاسی رہنمائوں‘ وزراء کو بھی چاہیے تھاکہ خاموش رہتے‘ یہ بولے ہیں تو ہرکارے بھی پیچھے نہیں رہے۔ کچھ لکھاری اس وقت کے وفاقی وزراء کی صفائیاں دینا شروع ہوگئے ہیں۔ عین ممکن تھا کہ اس موضوع پر بحث نہ چھڑتی مگر شیخ رشید احمد نے اس کی ابتداء کی کہ نواز شریف ایٹمی دھماکے کے ہامی نہیں تھے‘ شیخ رشید احمد یہ تو بتائیں کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اور کون کون تھا جو نواز شریف کی رائے سے متفق تھا۔
شیخ رشید احمد ہماری ملکی سیاست کا ایک ایسا باب ہیں‘ جنہیں پڑھا جائے تو پریشانی اور نہ پڑھا جائے تو بھی پریشانی ہوتی ہے‘ ان کے خلاف راولپنڈی کے ایک اہم اور معروف وکیل جناب حبیب وہاب الخیری کی تین اہم ترین رٹ پٹیشنز ابھی تک فیصلے کی منتظر ہیں‘ برسوں ہوئے خیری صاحب دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں‘ اللہ ان کی مغفرت فرمائے‘ ان کی پہلی رٹ پٹیشن‘ شیخ رشید احمد کے خلاف ان کے حد سے زائد انتخابی اخراجات سے متعلق ہے‘ دوسری ان کی شادی چھپانے سے متعلق ہے‘ اور تیسری یہ کہ ایٹمی دھماکے سے پہلے انہوں نے اپنی ایک قریبی جاننے والی شخصیت سے کہا کہ بینک اکائونٹ سے غیر ملکی رقم نکال لیں کیونکہ ایٹمی دھماکہ کے بعد فارن کرنسی اکائونٹس منجمد ہونے والے ہیں‘ رٹ میں یہ بات لکھی گئی کہ انہوں نے یہ اطلاع وفاقی وزیر کی حیثیت سے دی‘ خیری صاحب کا موقف تھا کہ ایسا کرکے قومی راز افشاء کیا ہے‘ شیخ رشید احمد‘ چونکہ راولپنڈی کے رہنے والے ہیں‘ مقامی میڈیا پرسنز سے ان کی دوستی اس لیے ہے کہ وہ انہیں ہری‘ نیلی پیلی‘ چٹ پٹی خبریں دیتے رہتے ہیں اور ان کی خوب سرپرستی بھی کی ہے اسی طرح وہ یہاں کے مقامی سیاسی کارکنوں کے بھی استاد اور سرپرست رہے ہیں‘ لہٰذا یہی وجہ سے کہ مسلم لیگ(ن) کی جانب تحریک انصاف‘ پیپلزپارٹی‘ کبھی کبھی جماعت اسلامی پر گولہ باری کی جاتی ہے مگر مسلم لیگی کارکن‘ مسلم لیگ کی ترجمان کی جانب سے کبھی بھی شیخ رشید احمد کے لیے کوئی ایسا ’’کلمہ حق‘‘ نہیں بولا جاتا جو شیخ صاحب کی طبیعت پر گراں گزرے‘ راولپنڈی کے ہر مسلم لیگی کو علم ہے کہ اینٹ ماریں گے تو جواب میں پتھر آئے گا‘ اور یہی حال مقامی میڈیا پرسنز کا بھی ہے‘ اگر کسی نے ایک بھی کالم لکھ دیا تو اسے علم ہے شیخ صاحب ادھار نہیں رکھیں گے اور ان سب کی قبائیں بیچ چوراہے پر کھول کر رکھ دیں گے‘ کچھ عرصہ ہوا‘ مسلم لیگی رہنماء حنیف عباسی کی صاحب زادی کا اپنے اسپتال میں کسی ڈاکٹرز سے جھگڑا ہوگیا‘ حنیف عباسی ان دنوں ایفی ڈرین کیس میں جیل میں تھے‘ جس ڈاکٹر سے جھگڑا ہوا اس کا تعلق شیخ رشید احمد سے بھی اور مقامی مسلم لیگی رہنمائوں کے ساتھ بھی تھا‘ یہ بات ذاتی علم میں ہے کہ کسی بھی مقامی مسلم لیگی رہنماء نے حنیف عباسی کی صاحب زادی کے حق میں ہمدری کے دو بول نہیں بولے‘ بلکہ مذمت میں جاری کی ہوئی پریس ریلیز واپس لی گئی کہ کہیں شیخ رشید احمد اور ڈاکٹر ناراض نہ ہوجائیں۔
سیاست سانپ سیڑھی کا کھیل ہے‘ اس کھیل میں جو خاموش رہا‘ اس کی دستار ہی چھینٹوں سے بچی رہتی ہے‘ جنہیں چودھری نثار علی خان نے فائدہ پہنچایا‘ ان کا فرض ہے کہ وہ قرض اتاریں‘ لیکن سمجھ داری اسی میں ہے کہ سیاسی رہنمائوں اور وزراء سے تحائف کا ’’قرض‘‘ اتنا ہی لیا جائے جو آسانی سے ادا بھی ہوسکے سینیٹر راجا محمد ظفر الحق‘ ایک خاموش طبع سیاست دان ہیں‘ ان کی خاموشی بہت بڑی خبر ہوتی ہے‘ لیکن جب بولتے ہیں تو ان کے انکار کے الفاظ کا وزن اتنا بھاری ہوتا ہے کہ جنرل مشرف جیسا حکمران بھی آج تک ان انکار کے ملبے تلے پڑا ہے‘ جنرل مشرف نے انہیں
وزارت عظمیٰ کی پیش کش کی اور کہا کہ وہ جسے چاہیں گے وہی اسمبلی میں آئے گا‘ راجا ظفر الحق نے انکار کردیا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں چل سکتے‘ راجا ظفر الحق کا خاندان جرنیلوں کا خاندان ہے، وہ جنرل ضیاالحق کی کابینہ میں رہے‘ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے مشیر رہے‘ کابینہ میں جب ان سے رائے مانگی تو بولے ’’جناب وزیر اعظم! بھارت نے 5ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو جوابی ایٹمی دھماکے کرنے کا سنہری موقع دیا ہے لہٰذا پاکستان کو تمام خطرات مول لے کر ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کر لینا چاہیے اگر ہم نے آج ایٹمی دھماکے نہ کیے تو بھارت پاکستان کو بلیک میل کرتا رہے گا اور خطے میں پاکستان کو اپنی طفیلی ریاست بنانے کی کوشش کرے گا بھارت خطے میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے پیش رفت کرے گا‘ہمیں سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق حاصل کرنا چاہیے اگر ہم نے ایٹمی دھماکے نہ کیے تو پھر مسئلہ کشمیر کو فراموش کر دینا چاہیے۔ اگر ہم نے دھماکے نہ کیے تو دنیا پاکستان نے نیوکلیئر پروگرام کو شک کی نگاہ سے دیکھے گی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا اعزاز دینے کے لیے منتخب کیا ہے تو آپ جرأت و استقامت سے یہ سب کچھ کر گزریں اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا‘‘۔ راجا محمد ظفر الحق کی تقریر کے دوران پورے اجلاس میں سناٹا رہا چودھری نثار علی خان نے کہا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ہونے والی گفتگو باہر نہیں آنی چاہیے تو شیخ رشید احمد نے چودھری نثار علی خان سے طنزیہ انداز میں کہا کہ اگر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آپ کے موقف کو پزیرائی حاصل ہوتی تو آپ باہر جا کر پریس کا نفرنس کرتے راجا محمد ظفر الحق کہتے ہیں ’’28مئی1998ء کو ایٹمی دھماکے کرنے کا کریڈٹ میاں نواز شریف ہی کو جاتا ہے جنہوں نے ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے ایٹمی دھماکے کرنے کا حکم دیا، ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ نواز شریف کا فیصلہ تھا ان دنوں امریکی صدر بل کلنٹن نے پانچ بار ٹیلی فون کیا‘ مشاہد حسین سید گواہ ہیں کہ اس دوران کیا بات چیت ہوئی‘ بہتر یہی ہے کہ وہ اس بات چیت کی مٹھی کھول دیں۔