گھیرا تنگ یا مخالفین کا گھیرائو

308

حکومت کے اعلانات اور بیانات کے مطابق چینی اسکینڈل میں ملوث ما فیا کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے ، وزیر اعظم نے فوجداری مقدمات قائم کرنے کی منظوری دیدی ہے ۔ اب کوئی بچ کر نہیں جائے گا ۔ وفاقی وزراء اور سرکاری ترجمان دعوے کر رہے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی حکومت نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کتنا بڑا قدم؟ کیا حکومت سے تعلق رکھنے والے جن افراد کا نام اس اسکینڈل میں آیا ہے ان سب کو یا ان میں سے کسی ایک کو پکڑ کر جیل میں ڈالا گیا اور عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ۔ ابھی تک تو ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ملزمان میں سر فہرست جہانگیر ترین گھیرا توڑ کر لندن نکل گئے ، اب لکیر پیٹا کریں ۔ جہانگیر ترین لندن میں بیٹھ کر عمران خان اور تحریک انصاف پر کیے گئے اپنے احسانات یاد دلا رہے ہیں کہ ان کا ہوائی جہاز نہ ہوتا تو کیا عمران خان اتنا طویل دھرنا دے سکتے تھے کہ صبح کو اسلام آباد میں اور شام کو کسی اور شہر میں خطاب فرما کر واپس آ جاتے ۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جہانگیر ترین اپنے ہوائی جہاز میں لوگوں کو ڈھو ڈھو کر لاتے اور تحریک انصاف میں جمع کراتے رہے اور بمشکل اکثریت دلوائی ۔ اب وہ اپنے احسانات کا بدلہ تو چاہیں گے ۔ حزب اختلاف تو انہیں عمران خان کا اے ٹی ایم کہتی ہے ۔ کیا شوگرمافیا کے کارپردازوں اور سرغنہ پر آسانی سے ہاتھ ڈالا جا سکے گا ۔ ایک اور نمایاں نام وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا ہے جنہوں نے چینی کی برآمد پر سب سڈی دی۔ لیکن کیا انہوں نے یہ کام اپنے وزیر اعظم کی آشیرباد کے بغیر کیا ہو گا ۔ خسرو بختیار، وزیر خزانہ پنجاب اور دیگر چھٹ بھیے ابھی تک تو چھوٹے ہوئے ہیں۔شوگر مافیا کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے بجائے معاملے کو طول دینے اور بڑے مجرموں کو نکل بھاگنے کے لیے اب گزشتہ25برس کا حساب لینے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ ضرور ایسا کریں لیکن پہلے حالیہ دو برس کا حساب تو دیں ۔ شوگر مافیا کا معاملہ تو عمران خان تک جا رہا ہے جن کے ما تحت اقتصادی رابطہ کمیٹی اور کابینہ میں فیصلے کیے گئے ۔عمران خان کا د عویٰ ہے کہ احتساب سے کوئی بالا تر نہیں ہے ۔ اقتدار میں آنے سے پہلے بھی ان کا یہی دعویٰ تھا کہ وہ سب سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کریں گے لیکن ایسا ہو نہیں رہا ۔ وفاقی حکومت کے حکم پر نیب ، ایف آئی اے ، ایف بی آر ، اسٹیٹ بینک ،مسابقتی کمیشن اور دیگر ادارے شوگر مافیا کے بارے میں90 دن میں کارروائی مکمل کریں گے ۔ کیا 3ماہ میں یہ کام مکمل ہو سکے گا؟3ماہ تک تو یہ ا دارے آپس ہی میں اُلجھتے رہیں گے کہ کس کو کیا کرنا ہے ۔ یہ محض الزام نہیں ، تین ماہ بعد کارکردگی سامنے آ جائے گی ۔ البتہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف ضرور گھیرا تنگ ہو گا ۔ چنانچہ احتساب اکبر اور شبلی فراز نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ سب سے پہلے تو سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو20 ارب روپے کی سب سڈی(زر تلافی) کا جواب دینا ہو گا ۔ وہ تو کب سے کہہ رہے ہیں کہ آئو میرا حساب لو ۔ مگر پھر یہی سوال کہ عمرانی دور حکومت میں جو سب سڈی دی گئی اور چینی برآمد کر کے ملک کے اندر قیمتیں آسمان پر پہنچائی گئیں پہلے اس کا جواب تودیں ، ان مجرموں کا احتساب تو کریں ۔ کہا گیا کہ حمزہ شوگر ملز اور جہانگیر ترین کی جے ڈبلیو ڈی کا ٹیکس فراڈ سامنے آیا ہے ۔ فراڈ کرنے والے جہانگیر ترین کو ملک سے باہر کیوں جانے دیا گیا ۔ ممکن ہے کہ عمران خان کہہ دیں مجھے تو یہ بات ٹی وی کے ذریعے معلوم ہوئی ۔ شوگر مافیا کے خلاف گھیرا تنگ کرو لیکن پہلے چینی کی قیمتیں تو معمول پر لائو ، منافع خور اب بھی عوام کو لوٹ رہے ہیں اور حکومت محض دھمکیاں دے رہی ہے کہ یہ کر دیں گے ، وہ کر دیں گے ۔ حکومت گندم کی مصنوعی قلت پر قابونہیں پا سکی چنانچہ اب نجی شعبے کو بھی لا محدود ڈیوٹی فری گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔اطلاعات کے مطابق یہ گندم اگست تک پاکستان پہنچے گی جب خود پاکستان کی گندم بازار میں آ چکی ہو گی ۔گندم مافیا کو سبق سکھانے کا یہ اچھا اقدام ہے جس کا اعلان ہوتے ہی گندم کی قیمت کم ہونے لگی ہے۔ لیکن خدشہ ہے کہ گندم کی بلا روک ٹوک درآمد میں نئے نئے گھپلے سامنے نہ آجائیں ۔ حکومت کسی بھی معاملے کوقابو میں رکھنے میںمکمل طور پر ناکام رہی ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصے بعد گندم مافیا کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا اعلان سامنے آئے ۔ ایک طرف تو دعوے ہیں کہ ملک میں گندم کی کوئی کمی نہیں ہے دوسری طرف درآمد کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے ۔ چینی کے بعد اب گندم پرسب سڈی دی جا رہی ہے ۔۲