’’میں عطا محمد (محمدبچل) ولد محمد بخش۔ اپنے علم وتعلیم کے مطابق سوچ سمجھ کر اپنی اولاد کو اور قریبی رشتے داروں دوستوں کو وصیت کرتا ہوں کہ میری نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے، کیوں کہ میں اسلام کو بڑا فریب اور جھوٹا سمجھتا ہوں، میرے سینے اور چہرے سے کفن ہٹا کر مجھے اوندھے منہ قبر میں دفن کیا جائے تاکہ میرا سینہ اور منہ دھرتی ماتا سے مل جائے تاکہ میں ماتا دھرتی کو ہمیشہ چومتا رہوں۔ میری قبر کو اوپر سے پکا کیا جائے اور قبر کی چاروں طرف مضبوط لوہے زنجیریں ڈالی جائیں، جب سندھ آزاد ہو تب وہ زنجیریں کھولی جائیں، قبر کے سراہنے یہ کتبہ لکھا جائے یہاں سندھ ماتا دھرتی کا ایک غلام دفن ہے، جس کی قبر سندھ ماتا کی آزادی تک زنجیروں سے جکڑی رہے گی۔ وصیت کرنے والا، عطا محمد بھنبھرو‘‘۔ اور پھر 4 جون 2020 کو 90 سال کی زندگی پاکر یہ عطا بھنبھورو مٹی میں مل گیا اور ہمیشہ کے لیے مٹ گیا، اسے اس کے آبائی گوٹھ بچل بھنبھورو میں بغیر نماز جنازہ دفناکر وصیت بھی پوری کردی گئی۔ اپنے نام کے ساتھ محمد لگانے والا اور محمدؐ کے دین کو نعوذ بااللہ دھوکا اور فریب کہنے والا اللہ کے حکم سے موت کا وقت آنے پر ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکا۔ اس کی خواہش کے مطابق اسے قبر میں اوندھا لٹا کر اسے دفن کردیا گیا۔ گو کہ زندگی اور موت کی حقیقت سمیت اسلام کے نظام کو جھٹلانے والے کو اس کے چند جاننے والوں کے سامنے دفن کردیا گیا۔
وہیں سے زندگی کی درحقیقت راہ ملتی ہے
سفینہ غرق ہوجائے جہاں ٹکرا کے ساحل سے
یقین نہیں آتا کہ یہ کیسا شخص تھا اور اسے کیوں دانشور سمجھا یا مانا جاتا تھا، بھلا کوئی، جس نظام کے تحت دنیا کا وجود ہوا، جس نظام اسلام کے تحت دنیا کی سچائی ہے، جس نظام کو فروغ دینے اور اس کی حقیقت کو آشکار کرنے والے محمد عربیؐ کے دین سے انکار کرنے والا بھلا کیسے دانشور کہلا سکتا ہے؟ میری خوش قسمتی ہے کہ اللہ نے مجھ سے اس کی ملاقات نہیں کرائی اور میں اس بات پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے اس کی تین سو میں سے کوئی کتاب بھی پڑھی اور نہ دیکھی۔
4 جون کو جب عطا بھنبھورو کی زندگی تمام ہوئی تو اسے اُلٹا لٹا کر سپرد خاک کرنے کے بعد اس کی وصیت کے مطابق اس کی خبر پر زنجیروں کا حصار بھی کردیا گیا۔ کیونکہ اس کی یہی تاکید تھی، اس نے کہا تھا کہ جب تک سندھ آزاد نہ ہوجائے اس کی قبر کو زنجیر میں رہنے دیا جائے۔ اسلام کا مخالف ہونے کے باوجود جو ’’جیتے جی‘‘ مکمل آزاد رہا بھلا خاک میں ملنے سے اس کی قید کا کیا فائدہ؟ چونکہ وہ اپنے تئیں دانشور تھا اور وہ اپنے ماننے والوں کی بے وقوفی سے واقف تھا اس لیے اس نے مرنے قبل بھی اپنے چاہنے والے بیوقوف لوگوں کو ایک ٹاسک دے گیا۔ اب اس کی قبر کوئی ’’مزار‘‘ کی بھی شکل اختیار کرسکتی ہے، یہاں اجتماعات و لنگر کا بھی اہتمام کیا جاسکتا ہے ممکن ہے کہ میلہ بھی لگایا جائے کیونکہ پیپلز پارٹی کی وفاقی و صوبائی حکومت نے تو اسے 2012 میں ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ یہ ایوارڈ عطا بھنبھورو عرف بچل نے لینے سے انکار کردیا تھا جس کی ایک وجہ اسی سال اس کے بیٹے راجا داہر کے اغواء اور قتل کا واقعہ تھا۔ بچل بھنبھورو نے اپنے بیٹے کا نام اسلام مخالفت کی وجہ سے راجا داہر رکھا تھا، راجا داہر جس سے اسلام کے عظیم مجاہد محمد بن قاسم نے سندھ فتح کرکے راجا داہر کی حکمرانی ختم کرڈالی تھی جو پاکستان کے پنجاب اور سندھ کے بعض علاقوں میں قائم تھی۔ بچل بھنبھورو تو چلا گیا لیکن جاتے ہوئے کئی اسلام مخالفین کو بھی چھوڑ گیا۔ ان بدقسمتوں میں وطن عزیز پاکستان کا سرکاری ملازم اور صوبہ سندھ کا مشہور و معروف گستاخ پروفیسر بھی شامل ہے۔ یہ شخص شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور میں پروفیسر ہے قومی خزانے سے منتھلی ڈیڑھ لاکھ تنخواہ لیتا ہے اس کے باوجود یہ پورا دن اسلام اور پاکستان کے خلاف بکواس کرتا ہے۔ مگر اس کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کرتا کیونکہ اس کے گرد راجا داہرکی ’’اولادوں‘‘ کا ہجوم ہوتا ہے۔ گوکہ محمد بن قاسم نے تو سندھ راجا داہر سے کئی 713 عیسویں میں فتح کرلیا تھا مگر راجا داہر کی اولادوں اور اس کے چاہنے والے اب بھی نہ صرف موجود ہیں بلکہ اس کے مشن کی تکمیل میں سر گرم ہے۔ مگر ہماری حکومتیں ان کی نہ صرف پشت پناہی کرتی ہیں بلکہ انہیں سرکاری نوکریوں سے بھی نوازا ہوا ہے۔ یہ ہے ہمارا المیہ۔