لامحدود نااہلی محدود مسائل کو بھی عذاب بنا دیتی ہے۔ انسان اور جانوروں میں بے حسی کا فرق ہوتا ہے۔ بے حسی انسان کو جانور بنا دیتی ہے۔ یوٹرن یا ’’کہہ کر مکر جانا‘‘ عمران خان کا ’’دوسرا محبوب نشہ‘‘ ہے۔ یہ ان کی دوسری محبوب تفریح ہے۔ آج کے اخبارات کی سرخی ہے ’’کورونا سے مزید 97‘‘ اموات۔ ’’عوام کورونا پر سنجیدہ نہیں۔ عمران خان‘‘۔ یہ بیان نہیں وہ بے حسی ہے جو انسانوں اور جانوروں میں وجہ امتیاز ہے۔ ملک میں ایک ہی دن میں کورونا کے پانچ ہزار مریض سامنے آچکے۔ صرف پنجاب میں تقریباً سات سو کے قریب مریض دم توڑ چکے ہیں۔ تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے اور عمران خان اس صورت حال کا ذمے دار عوام کو ٹھیرا رہے ہیں۔ ان کو شرم آنی چاہیے۔ مارچ سے لے کر آج تک عمران خان کے تمام بیانات اور ان کے سارے ٹوئٹس اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ ایک بات وہ تواتر سے کہتے نظر آتے ہیں ’’کورونا سے خطرہ کوئی نہیں ہے۔ یہ فلو کی متعدد اقسام کی طرح کا فلو ہے۔ فلو کی محض ایک قسم ہے۔ عام فلو کی طرح کا فلو ہے۔ الحمدللہ خطرہ کوئی نہیں۔ پاکستان میں یہ اس طرح نہیں پھیل رہا جس طرح باقی دنیا میں پھیل رہا ہے۔ کورونا صرف بزرگوں اور مستقل مریضوں کو ہوتا ہے۔ 97فی صد لوگ اس سے صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں۔ ہمارے پاس ایمان کی طاقت ہے۔ ہم نے کورونا متاثرین کے لیے ٹائیگر فورس بنادی ہے‘‘۔ ساری دنیا کے سمجھدار حلقے چلا رہے تھے، مسلسل توجہ دلارہے تھے کہ اگر حکومت کی یہی پالیسی رہی تو کورونا پاکستان میں بھی وہ تباہی مچائے گا کہ سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ یہاں پر آپ نے کون سی دفاعی تیاریاں کررکھی ہیں؟، کون سی ویکسین کا بندوبست کررکھا ہے؟، کون سی دیواریں کھڑی کررکھی ہیں کہ کورونا جن سے سر ٹکرا ٹکرا کر لوٹ جائے گا؟۔ کبھی سنجیدگی سے لاک ڈائون کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ جنھوں نے سنجیدگی سے کام کیا ان کے خلاف محاذ کھڑے کردیے۔ کبھی اشرافیہ کو مورد الزام ٹھیرا دیا کہ یہ ہم نہیں اشرافیہ ہے جو لاک ڈائون چا ہتی ہے۔ لاک ڈائون غربت میں اضافہ کا سبب بن جائے گا۔ حضور کون سی غربت میں اضافہ۔ آپ نے آتے ہی غربت میں وہ بے پناہ اضافہ کردیا ہے اب اس غربت میں مزید کیا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جب آپ آئے تھے جی ڈی پی کی شرح 5.8فی صد تھی اور آج 1.8فی صد۔ آبادی کی شرح سے تقابل کریں تو شرح ترقی صفر۔ لیڈر عوام کے لیے مثال ہوتا ہے آج تک کسی تصویر میں عمران خان عوام کو کورونا سے احتیاط کا درس دینے کے لیے ماسک پہنے نظر نہیں آئے۔ ابتدا میں حکومت نے ڈھیلا ڈھالا لاک ڈائون کیا۔ جب حکومت کی غفلت کے باعث مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو وہ نام نہاد لاک ڈائون بھی ختم کردیا۔ دنیا سے الگ بے ڈھنگی چال جس کے موجد عمران خان ہیں۔ کس منہ سے عمران خان کہہ رہے ہیں کہ عوام کورونا پر سنجیدہ نہیں۔ عوام نہیں حضور یہ آپ ہیں جسے پتا ہی نہیں کہ کس معاملے کو کتنی سنجیدگی سے لینا ہے؟
جہاں پاکستان جیسے گمبھیر مسائل میں گھرے ہوئے ملک کے وزیراعظم کے پاس اتنا وقت ہو کہ وہ ارطغرل کی 90قسطیں دیکھ لے اس ملک میں ایسے ہی رسی کے سانپ بنتے ہیں جیسے پاکستان میں بن رہے ہیں۔ یہ ملک خانہ انوری بن چکا ہے۔ ہر نحوست کا رخ پاکستان کی طرف ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے نہ جانے کیا سوچ کر اس شخص کو پاکستان پر مسلط کیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس بربادی کے باوجود وہ اس شخص کے ساتھ ایک پیج پر ہیں۔ کم وبیش نصف ملک میں فصلیں ٹڈی دل کے حملے کی زد میں ہیں۔ ٹڈی دل فصلوں کو بے خوف وخطر کھا رہے ہیں۔ سید فخر امام کا کہنا ہے کہ جون اور جولائی میں اس کے مزید جھنڈ افریقا اور ایران کے راستے پاکستان پہنچ سکتے ہیں۔ گزشتہ تیس برسوں میں ٹڈی دل کا یہ پاکستان پر سب سے بڑا حملہ ہے۔ ٹڈی کی ایک مادہ دو سو سے بارہ سو انڈوں کی پیدائش کا سبب بن سکتی ہے۔ بلوچستان اور کئی دوسرے علاقوں میں یہ انڈے دے چکے ہیں جن سے بچے نکلنے والے ہیں۔ عالمی ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچر (ایف اے او) کے مطابق پاکستان کا 38فی صد علاقہ ٹڈی دل کے حملے سے متاثر ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں پاکستان کی فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ تقریباً 464ارب روپے لگایا جارہا ہے جو کل ملکی پیداوار کا تقریبا ً3.7فی صد بنتا ہے۔
پاکستان میں ٹڈی دل کے حملے کی اطلاعات جون 2019 سے ملنا شروع ہوئیں یعنی ایک سال سے ٹڈی دل کے حملے کے خطرے کی خبریں گردش میں تھیں۔ یکم فروری 2020 کو حکومت نے ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا۔ اتنی بڑی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے نو مہینے کا التوا، نو مہینے کی غفلت کیوں روا رکھی گئی؟۔ اس وبا سے نمٹنے کے لیے فوری طور پرکوئی موثر حکمت عملی کیوں نہیں اپنائی گئی؟۔ آپ کو حیرت ہوگی اس خطرناک ترین معاملے سے اس قدر شدید غفلت برتی گئی کہ ٹڈی پر دوائوں کا اسپرے کرنے والا پہلا جہاز ترکی سے گزشتہ مہینے مئی 2020 کے پہلے ہفتے میں پاکستان پہنچنا تھا۔ گیارہ ماہ میں ٹڈی دل ملک کے کئی علاقوں میں پھیل چکا ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے عظیم حکمت عملی کے تحت ترکی سے ایک جہاز، جی ہاں، صرف اور صرف ایک جہاز درآمد کیا گیا۔ اس غفلت اور نااہلی پر اس حکومت کو کیا سزا ملنی چاہیے۔ جو حلقے اس حکومت کو لائے ہیں وہ کیا فرماتے ہیں بیچ اس معاملے کے؟۔ چند دن پہلے جب سے ٹڈی دل کے حملے پورے ملک میں شروع ہو چکے ہیں تو نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین نے اطلاع دی ہے کہ اسپرے کرنے کے لیے 9طیارے دستیاب ہیں جن میں 5پاکستانی آرمی کے ہیلی کاپٹر بھی شامل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مزید 6طیارے خریدے جارہے ہیں جس کے بعد اسپرے کرنے والے طیاروں کی تعداد 15ہوجائے گی۔ تب تک ٹڈی دل حملہ کرنے کے لیے انتظار کرے گا!! سوال یہ ہے کہ ایک سال پہلے جب اس وبا کی اطلاع ملی تھی حکومت نے اسی وقت موثر اقدامات کیوں نہیں اٹھائے۔ آج اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے افواج پاکستان نے پانچ ہزار جوان متعین کردیے ہیں، طیارے خریدے جارہے ہیں، ادویات درآمد کی جارہی ہیں۔ یہ تمام اقدامات اٹھانے میں اتنی مجرمانہ غفلت کیوں روا رکھی گئی ہے۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس مسئلے کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈالنے اور خواب خرگوش کے مزے لوٹنے کے بجائے ابتدا ہی میں اس مسئلے کی سنگینی اور خطرے کا احساس کر لیتیں تو کیا یہ مسئلہ پیدا ہوتے ہی ختم نہ ہو جاتا۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس نظام میں کوئی کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جو بھی بحران پیدا ہوتا ہے وفاقی حکومت اس کی ذمے داری صوبائی حکومت پر اور صوبائی حکومت اس کی ذمے داری وفاقی حکومت پر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔ پاکستان میں سیکڑوں بچے آوارہ کتوں کے کاٹے جانے کا شکار ہیں۔ اس کی دوا کی پاکستان میں شدید قلت ہے۔ صوبائی حکومتیں اس دوا کی قلت کی ذمے داری وفاقی حکومت پر ڈال دیتی ہیں کہ دوا کی درآمد کی ذمے داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ کورونا سے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں تو وفاقی حکومت ذمے داری صوبائی حکومتوں پر ڈال دیتی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت صوبائی معاملہ ہے۔ یہی صورت حال امن وامان کے معاملے میں بھی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد امن وامان بھی صوبائی حکومت کا معاملہ ہے۔ اس نظام میں یہی بحثیں چلتی رہتی ہیں۔ عوام کورونا سے مرتے ہیں، مریں۔ فصلیں ٹڈی دل سے برباد ہوتی ہیں، ہوتی رہیں۔ کسی کی ذمے داری نہیں۔ حکومتیں گھر پھونک تماشا دیکھتی رہتی ہیں۔ یہ خلافت کا نظام نہیں ہے کہ اگر ایک کتا بھی پیاس سے مرجائے تو خلیفہ اس کا ذمے دار ہوگا اس کا جوابدہ ہوگا۔ خلافت وحدانی نظام ہے جس میں تمام معاملات کا خلیفہ ذمے دار ہوتا ہے اس میں وفاقی، صوبائی یا بلدیاتی کی تخصیص نہیں ہوتی۔ نظام خلافت میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کس مسئلے کو دیکھنے کی ذمے داری کس کی ہے۔ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر قائم کردہ اسلامی نظام خلافت ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ کمیونزم کی طرح سرمایہ دارانہ نظام بھی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔