آہ!! اسلم یار خان

433

ظفر عالم طلعت
ہر وہ شخص جو کبھی نہ کبھی۔۔۔ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی ادارے میں ملازمت کر چکا ہے یا کررہا ہے۔ وہ باس (Boss) سے اچھی طرح واقف ہے۔ یا تو وہ خود باس رہا ہے یا باس کا ماتحت۔ دونوں صورتوں میں اسے باس کے رویے مزاج اور سلوک کا اندازہ ہوگا۔ یا تو اس نے باس کو بھگتا ہوگا یا لوگوں نے اسے بحیثیت باس برداشت کیا ہوگا۔ عام طور پر لوگوں کے ذہن میں باس کا تصور ایک بہت ہی سخت مزاج کھردرے رویے اور ماتحتوں پر رعب جھاڑنے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے والی شخصیت کا سا ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوںگے جن کو اس کے بر خلاف باس سے واسطہ پڑا ہو۔ وہ بڑے خوش قسمت ماتحت ہوںگے جن کا باس انسانیت، محبت، شفقت اور پدرانہ اور برادرانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہوگا۔ جو کام کے ساتھ ساتھ ماتحتوں کے ذاتی مسائل اور ان کی ذاتی زندگی اور مشکلات سے واقف ہو اور اس حوالے سے ان سے تعاون کرتا ہو۔ہم بھی ایسے ہی خوش قسمت لوگوں میں شامل ہیں۔ جن کا باس ان تمام خوبیوں سے مالامال تھا۔ یہاں میں اپنے ایسے ہی ایک باس کا ذکر خیر کروں گا جو اب اس دنیا میں نہیں رہے اور اپنی خوش گوار یادیں چھوڑ گئے ہیں۔مرحوم و مغفور اسلم یار خان صاحب۔ آپ ایک بڑے بینک کے آئی ٹی (کمپیوٹر) ڈویژن کے سینئر ایگزیکٹیو تھے۔ اور پاکستان میں کمپیوٹر کے بانیوں میں سے تھے۔ ہمیں ان کے ساتھ بیس سال تک کام کرنے کا شرف حاصل رہا۔ ہم نے ہمیشہ انہیں محبت اور شفقت کرنے والا پایا۔
ہم ان کے زیر سایہ کمپیوٹر پروگرامنگ، سسٹم ڈیزائننگ اور بڑے بڑے آئی ٹی پروجیکٹس پر کام کرتے رہے۔ کبھی ٹیم ممبر بن کر اور کبھی ٹیم لیڈر بن کر۔ جب کبھی موڈ میں ہوتے تو کہتے کہ یہ لوگ ہمارے شہزادے ہیں۔ اور ہمیشہ شہزادوں والا سلوک روا رکھا۔ اگر انہیں اندازہ ہو جاتا کہ ہم میں سے کوئی پریشان ہے۔ تو وہ پریشانی دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ کہتے تھے کہ کمپیوٹر پروگرامنگ کے لیے ذہنی سکون اور یک سوئی بہت ضروری ہے۔ اگر کوئی ذہنی پریشانی میں ہو تو وہ کبھی بھی اس کام کو دل سے نہیں کرسکتا اور اس سے اچھے نتائج کی امید نہیں کی جاسکتی۔ فرماتے کہ اگر کوئی غلطی ہوجائے تو اسے چھپانے کے بجائے سب سے پہلے مجھے آکر بتائو۔ اور بے فکر ہوجائو۔ باقی معاملات کو میں سنبھال لوں گا۔ اس کے برعکس ایک اور باس تھے جو ازراہ مذاق کہتے تھے۔ کام کروگے تو غلطی ہوگی۔ غلطی ہوگی تو پکڑ ہوگی۔ لہٰذا نہ کام کرو۔ نہ غلطی ہو۔ نہ پکڑ ہو۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ ایک مرتبہ کمپیوٹر سے شیئرز سرٹیفکیٹس پرنٹ کرنے تھے۔ اس میں کوئی غلطی رہ گئی۔ دس ہزار کے لگ بھگ سرٹیفکیٹس غلط پرنٹ ہوگئے اور کافی نقصان ہوا۔۔۔ لیکن اسلم صاحب نے معاملے کو سنبھال لیا اور پروگرامر پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔
اکثر ان کے ساتھ سفر کرنے اور ہوٹلوں میں ساتھ رہنے کا موقع بھی ملا۔ کہتے ہیں کہ انسان کی پہچان سفر میں ہوتی ہے۔ ہم نے انہیں یہاں بھی ایک اچھا باس اور شفیق دوست پایا۔ کبھی لاہور جاتے تو ایک بہت ہی مشہور چائنیز ہوٹل میں ہمیں بھی ساتھ لے جاتے۔ اور لاہور کی سیر بھی کراتے۔ 1991-92 کا ذکر ہے ہماری پوسٹنگ مسقط عمان ہوگئی۔ بینک نے ہمیں کمپیوٹر مینیجر بنا کر بھیجا تھا۔ ہم نے کمپیو ٹر ڈیپارٹمنٹ بنا دیا اور آپریشنل بھی کردیا مگر آن لائن کمپیوٹرائزیشن سے پہلے ہی کچھ تو اپنی ہوم سکنس کی وجہ سے اور خاص طور پر اپنی والدہ مرحومہ کی وجہ سے جو ہم سے بہت زیادہ ہی لگائو رکھتی تھیں اور ہمارے چلے جانے سے سخت بیمار ہوگئی تھیں۔۔۔ ایک دن انہوں نے ہمیں خط لکھا۔۔ (واضح رہے کہ اس زمانے میں سوشل میڈیا نہیں تھا۔) ظفر بیٹا میں تمہارے پودوں کا بہت خیال رکھتی ہوں اور روزآنہ پانی دیتی ہوں۔ جب میں تمہارے پودوں کو پانی دیتی ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں تمہیں پانی پلا رہی ہوں۔ ہم جو پہلے ہی محبت کے مارے لوگ ہیں۔ اس خط نے ہمارا کلیجہ چیر دیا۔ وہ دن ہم پر بہت بھاری اور غمگین گزرا۔۔ بالآخر ہم نے واپسی کا فیصلہ کرلیا۔۔ کیونکہ پیسہ بہت کچھ تو ہے مگر سب کچھ نہیں۔ بعض رشتے اور خاص طور پر ماں کا رشتہ ایسا ہے کہ اس کا نعم البدل کوئی نہیں۔۔مگر واپسی اتنی آسان نہ تھی۔۔ لوگ بھی حیران تھے کہ آج تک کسی نے یوں فارن پوسٹنگ نہیں چھوڑی۔ بینک کی ٹاپ مینجمنٹ اور صدر کو قائل کرنا اتنا آسان نہ تھا۔ ایسے موقع پر اسلم صاحب ہی ہمارے کام آئے اور کسی نہ کسی طرح بینک کے صدر اور بورڈ کو قائل کر ہی لیا اور یوں ہماری پاکستان واپسی ممکن ہوئی۔ واپس آتے ہی ہماری والدہ صاحبہ خوشی سے کھل اٹھیں اور جلد ہی صحت یاب ہوگئیں۔ سب نے کہا ان کو کوئی اور نہیں ظفر کی بیماری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ واپسی کے بعد 1995 میں ہم نے والدہ کے ساتھ عمرہ کیا۔ عمرے سے واپسی پر ہم اپنی والدہ کے ساتھ اسلم صاحب کے گھر تبرکات لیکر گئے۔ اسلم صاحب اور ان کی اہلیہ صاحبہ نے ہماری والدہ کا بہت اکرام کیا۔ ہماری والدہ بھی ان کو ہمیشہ اپنی دعائوں میں یاد رکھتی تھیں۔
اسلم صاحب کی انہیں باتوں اور حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ جب وہ ہمیں کوئی پروجیکٹ دیتے تھے۔۔۔ تو ہم بھی جان مار کے، رات دن ایک کرکے اور بعض اوقات تو کئی کئی دن گھر چھوڑ کر مسلسل پروجیکٹ کو حسب منشاء مقررہ وقت میں مکمل کرکے دیتے تھے۔ ایسے میں بھی اسلم صاحب کی نوازشیں ہماری ٹیم پر جاری رہتی تھیں۔۔ اور وہ ہمارے قیام و طعام اور آرام کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ غرض یہ کہ وہ ہم سب کی ٹینشن اپنے سر لے لیتے تھے اور ہمیں بے فکر ہوکر کام کرنے کا موقع دیتے تھے۔۔ حالانکہ خود بھی صحت کے مسائل سے دوچار تھے۔ ان کی شفقت کا تقاضا تھا کہ 2005 میں جب ہم اپنی اہلیہ کے ساتھ حج سے واپس آئے تو ہم لوگ تبرکات لیکر ان کے گھر گئے۔ اور یوں ہماری اہلیہ اور اسلم صاحب کی اہلیہ میں ایک تعلق قائم ہوگیا وہ بھی بہت اچھی خاتون ہیں اور آج کل بیماری اور اسلم صاحب کے صدمے سے نڈھال ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جلد از جلد صحت یاب ہوں۔۔ آمین
ہم نے اپنی 35 سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں دو بڑے بینکوں کے آئی ٹی ڈویژن میں کام کیا لیکن اسلم صاحب جیسا باس نہیں دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم نے گولڈن ہینڈ شیک اور اسلم صاحب نے ریٹائر منٹ لی تو اس کے بعد بھی ہمارا ایک خصوصی تعلق ہمیشہ قائم رہا۔ ہم نے بہت سے باسز دیکھے ہیں جن کی گردن میں سریہ آگیا تھا ماتحتوں کو انسان کے بجائے غلام سمجھتے تھے۔ ان کی بڑی پھوں پھاں تھی۔ جب آتے تو ایک جلوس ان کے ساتھ ہٹو بچو کی آوازیں لگاتا ہوا چلتا تھا۔ ان کے لیے لفٹ روک لی جاتی تھی۔ اور آج کل کے وزیروں کی طرح پروٹو کول ہوتا تھا۔ مگر جب وہ ریٹائر ہوئے تو وہی لوگ ان سے کنی کترانے لگے۔ ہم نے انسانیت، محبت اور حسن سلوک کا درس اسلم صاحب سے سیکھا۔ اسی لیے جب ہمیں باس بننے کا موقع ملا تو ہم نے بھی اسلم صاحب کے نقش قدم پر چلنے کی اپنی سی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی پرانے بینکوں میں جاتے ہیں تو لوگ محبت اور عزت سے پیش آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی رمضان (2020) کے آخری عشرے کی بابرکت ساعتوں میں اسلم صاحب کواپنے پاس بلالیا۔۔ایسی خوش نصیب موت کی تو صرف لوگ تمنا ہی کرسکتے ہیں۔۔مگر یہ نصیب کسی کسی کو ہوتی ہے۔۔یہ صرف خلق خدا کی دعاوں کے طفیل ممکن ہے۔۔کاش کہ لوگ اس بات کو سمجھ جائیں۔۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اسلم صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔آمین ثمہ آمین