عمارتیں گر رہی ہیں، حکمران سو رہے ہیں

291

کراچی کے علاقے لیاری میں 5 منزلہ عمارت گرنے سے تادم تحریر 18 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں ۔ کراچی میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ گزشتہ چھ ماہ میں اپنی نوعیت کا تیسرا بڑا واقعہ ہے ۔ اطلاعات کے مطابق جس قطعہ زمین پر یہ کثیر المنزلہ عمارت بنائی گئی تھی وہ اسکول کے لیے مختص تھا ۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں پر ہر قسم کا محکمہ موجود ہے ، رفاہی پلاٹوں ، ندی نالوں ، پارکوں ، فٹ پاتھوں پر قبضے ہوجاتے ہیں مگر کسی ادارے کو خبر ہی نہیں ہوتی ۔ ان پلاٹوں پر قبضہ کرنے والی مافیا جلدی میں کسی معیار کو مدنظر رکھے بغیر راتوں رات بلڈنگ کھڑی کرکے لوگوں کو فروخت کرکے رفو چکر ہوجاتی ہے مگر پھر بھی یہ سارے ادارے کہیں خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں ۔ ان سب کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پورے شہر میں سیوریج کا نظام تباہ ہے ، پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے اور چلنے کو جگہ نہیں ہے ۔ خراب تعمیرات کا نتیجہ بلڈنگ کے گرنے کی صورت میں نکلتا ہے اور یوں درجنوں افراد اپنی جان سے جاتے ہیں ۔ کچھ دن شور شرابا ہوتا ہے اور پھر سب رفت گزشت ہوجاتا ہے اور دوبارہ سے لینڈ مافیا سرکاری افسران کی سرپرستی میں اپنے گھناؤنے کھیل میں مصروف ہوجاتی ہے۔ اگر ایک مرتبہ ان عمارات کی تعمیر کے وقت موجود سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، کے ڈی اے ، کے ایم سی کے متعلقہ افسران اور علاقہ ایس ایچ او وغیرہ کوسزائیں دے دی جائیں تو آئندہ کے لیے ایسے حادثات سے بچا جاسکتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب عدالت عظمیٰ واضح الفاظ میں حکم دے چکی ہے کہ رفاہی پلاٹوں ، ندی نالوں اور پارکوں پر کی گئی چائنا کٹنگ کا خاتمہ کیا جائے تو متعلقہ ادارے اس پر عملدرآمد کیوں نہیں کررہے ہیں ۔ ان اداروں کا بس ایک ہی کام ہے اور وہ ہے قانونی پلاٹوں پر تعمیرات کرنے والے افراد کو تنگ کرنا ۔ اسی طرح جو لوگ چھوٹے پلاٹوں پر کثیر منزلہ عمارات بنارہے ہیں ، ا ن کی روک تھام کیوں نہیں کی جارہی ہے ۔ جس طرح سے سندھ حکومت نے مذکورہ اداروں کے افسران کی کرپشن پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ، اس سے یہ الزامات درست معلوم ہوتے ہیں کہ متعلقہ سیکریٹری ، متعلقہ وزیر کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ اور بلاول ہاؤس کو بھی پورا حصہ پہنچایا جاتا ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وزیر اعلیٰ سندھ گرنے والی عمارات کے ذمہ دار افسران کو قرار واقعی سزا کیوں نہیں دیتے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بھی حکومت سندھ کے قبضے میں ہے۔