کے ایم سی کے ’’ڈاکو افسران‘‘ کو کون پکڑے گا؟

422

کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کا شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرنے والا محکمہ فائر بریگیڈ اور اس سے منسلک اربن ریسکیو ڈپارٹمنٹ اپنی نوعیت کے واحد اور انوکھے شعبے بن چکے ہیں۔ ان دونوں محکموں پر مجموعی طور پر سالانہ ایک ارب 20 کروڑ 78 لاکھ 74 ہزار روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ جن میں 12 کروڑ 57 لاکھ 50 ہزار روپے سالانہ صرف فائر ٹینڈرز، اسنارکل اور چھوٹی گاڑیوں کی مرمت و دیکھ بھال پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ جبکہ دونوں محکموں کے عملے کی مجموعی تنخواہوں وغیرہ پر ایک ارب 20 کروڑ 78 لاکھ 7 ہزار روپے سالانہ اخراجات آتے ہیں۔ ان دونوں محکموں کی افرادی قوت میں شعبے فائر بریگیڈ کے عملے کی تعداد 1353 اور اربن سرچ اینڈ ریسکیو کے عملے کی تعداد 81 ہے۔ شہر میں فائر اسٹیشنوں کی کل تعداد 22 ہے جبکہ اربن سرچ اینڈ ریسکیو کا ایک اسٹیشن گلشن معمار میں ہے۔ 22 فائر اسٹیشنوں میں سے کوئی ایک بھی عالمی تو کجا پاکستان کے معیار کا بھی نہیں ہے۔ یہاں کے 20 اسٹیشن بغیر فائر ٹینڈرز کے چل رہے ہیں۔ بھینس کالونی (کیٹل کالونی) اسٹیشن کی نہ چہار دیواری ہے نہ ہی یہاں فون ہے۔ وائرلیس تو کسی بھی اسٹیشن، فائر ٹینڈرز، اسنارکل میں نہیں ہیں یوں سمجھیں کہ یہ دنیا کا واحد ہنگامی نوعیت کا ادارہ ہے جو وائرلیس کے بغیر چل رہا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی مار دھاڑ سے بھر پور سابق دور میں اس ڈپارٹمنٹ کو وائرلیس سے مبرا قرار دے دیا گیا تھا کیونکہ وائرلیس کا غلط استعمال حساس اداروں نے نوٹ کرلیا تھا۔ اس ڈپارٹمنٹ کی اصل تباہی کا سلسلہ 2009 سے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے آخری یا مصطفی کمال کی نظامت کے دور سے شروع ہوا جب اس شعبے کو ایک ’’کرپٹ چمپئن‘‘ افسر کی سفارش پر میونسپل سروسز کا محکمہ تخلیق کرکے اس میں شامل کردیا گیا اور پروگرام کے تحت اس محکمہ کا سربراہ مذکورہ سینئر افسر کو بنادیا گیا۔ کینڈین نیشنل مذکورہ افسر آج بھی میئر وسیم اختر کا سینئر ڈائریکٹر ڈائریکٹر کوآرڈی نیشن بنا ہوا ہے یہ پوسٹ چونکہ بجٹ میں نہیں ہے اس لیے غیر قانونی ہے۔ موجودہ میئر کو خلاف قانون اور خلاف ضابطہ اقدامات کرنے کا حوصلہ اسی افسر نے ہی دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس افسر نے کے ایم سی کے پورے نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ اس افسر کے اشارے کے بغیر نہ میئر کچھ کرسکتے ہیں اور نہ ہی میٹروپولیٹن کمشنر کوئی ایکشن لے سکتے ہیں۔
بات ہورہی تھی فائر بریگیڈ اور سرچ اینڈ ریسکیو ڈپارٹمنٹ کی، ان دونوں کے شعبوں کو کرپٹ افسران نے سونے کی چڑیا بنا کر دراصل ایک تماشا بنادیا ہے۔ اربن سرچ اینڈ ریسکیو ڈپارٹمنٹ کے قیام کا مقصد تو یہ تھا کہ شہر میں ناگہانی حادثات کی صورت میں فوری کارروائی کرنا، اس مقصد کے لیے اس شعبے کو تربیت یافتہ کتے بھی فراہم کیے گئے تھے مگر اب تک وہ سونگھنے کی حس رکھنے والے کتے بھی ادارے کے کرپٹ و بے حس افسران کا رویہ دیکھ کر بے حس ہوگئے، نتیجے انہیں چڑیا گھر کے سپرد کردیا گیا۔ معلوم ہوا ہے کہ فائر برگیڈ اور اربن ریسکیو کا عملہ اپنے فرائض کے بجائے کرپٹ افسران کی آمدنی کا بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ 14 سو عملے میں سے کم و بیش چھ سو آدھی تنخواہوں کے عوض چھٹی پر ہوتے ہیں جن سے ہونے والے مجموعی ماہانہ آمدنی ساڑھے چار لاکھ سے 5 لاکھ روپے بتائی جاتی ہے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ فائر برگیڈ شعبہ کا اپنا ورکشاپ بھی موجود ہے جہاں پروجیکٹ انجینئر سمیت تمام فنی اور غیر فنی عملہ موجود ہے مگر اس کے باوجود اسنارکل، فائر ٹینڈرز اور دیگر چھوٹی گاڑیوں کی مرمت و دیکھ بھال کے لیے نجی کنٹریکٹر کی خدمات 5 کروڑ روپے سالانہ پر حاصل کی ہوئی ہے۔ اور یہ سلسلہ کم و بیش گزشتہ دس سال سے جاری ہے۔ دس سال قبل محکمہ میں 48 فائر ٹینڈرز درست اور اسٹینڈ بائی پوزیشن میں ہوا کرتے تھے مگر اب صرف 6 تا 8 فائر ٹینڈرز مختلف اسٹیشن پر موجود ہوتے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ کے ایم سی کی چار اسنارکل میں سے اب کوئی ایک بھی ورکنگ حالت میں موجود نہیں ہے۔ سندھ حکومت نے جو بلندی تک آگ بجھانے کی صلاحیت رکھنے والی اسنارکل کے ایم سی کو دی تھی اسے بھی ناکارہ قرار دے کھڑا کردیا گیا ہے جبکہ اس پارک اسنارکل کی مد میں دو سو لیٹر فیول حاصل کیا جارہا ہے۔ یہی نہیں دیگر 22 فائر ٹینڈرز جن میں معمولی خرابیاں ہیں انہیں نہ درست کرایا ہے اور نہ ہی ان کا پٹرول یا ڈیزل کا حصول بند کیا جاتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سابق ڈپٹی چیف فائر آفیسر امتیاز افضل نے طویل عرصے سے ناکارہ قرار دے کر کھڑی کی جانے والی اسنارکل میں بیٹری لگاکر اسٹارٹ کروا دیا تھا اور اسے درست اسنارکل کے طور پر ریکارڈ میں شامل کرلیا تھا لیکن امتیاز افضل کے گزشتہ ماہ ریٹائرڈ ہوتے ہی ’’کرپٹ چمپئن‘‘ کے اشارے پر اسے دوبارہ خراب قرار دے دیا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 2018 میں آنے والی اسنارکل کی ابھی گارنٹی موجود ہے مگر اسے درست کروانے کی کوشش کے بجائے اس کی گارنٹی کی مدت مکمل کی جارہی ہے۔ کے ایم سی کے حالات سے واقف سرکاری افسران کا کہنا ہے کہ پہلے گاڑیوں کی مرمت و دیکھ بھال کا ٹھیکا ’’کرپٹ چمپئن‘‘ کے جاننے والوں کے پاس تھا مگر اب ’’یاسین پرائیویٹ لمیٹڈ‘‘ کے پاس ہے یہ فرم میئر کے قریبی رشتے داروں کی ہے جسے قائم کرکے مذکورہ چمپئن افسر نے ہی دیا ہے۔
کے ایم سی فائر بریگیڈ سمیت پورے ادارے کی حالت خراب کرنے کا اگر کوئی ایوارڈ ہوتا تو موجودہ منتخب کونسل کے کرتا دھرتا اس کے حق دار ہوتے۔
میں تو سوچتا ہوں کہ کے ایم سی کے موجودہ میئر اور دیگر کو منتخب کرانے والی ایم کیو ایم آئندہ کس منہ سے لوگوں سے ووٹ مانگنے جائے گی؟ جس کے میئر فنڈز اور اختیارات نہ ہونے کا رونا روتے ہوئے کئی من پسند افسران کو دو سے زائد اسامیوں پر پوسٹ کیا ہوا ہے اور عدالت عظمیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ جو ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود اہم ترین محکمہ فائر بریگیڈ میں اپنے سینئر ڈائریکٹر کوآرڈی نیشن کی سفارش پر کسی بھی سینئر اسٹیشن افسر کو چیف فائر آفیسر بنانے سے گریز کررہے ہیں۔ کراچی کا فائر بریگیڈ ڈپارٹمنٹ اس لحاظ سے بھی دنیا کا انوکھا محکمہ ہے جہاں کا کوئی چیف اور ڈپٹی چیف ہی موجود نہیں ہے۔ بلکہ ان دنوں پوری کے ایم سی کا انتظامی سربراہ بھی موجود نہیں ہے کیونکہ میئر نے تین سال پہلے جس سابق سیکٹر انچارج ملیر جمیل فاروقی کو قائم مقام سینئر ڈائریکٹر ایچ آر ایم مقرر کرکے تین اضافی عہدے اس کے حوالے کردیے تھے اسے سندھ حکومت اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے پر معطل کرچکی ہے۔ موصوف اب انکوائری کا سامنا کررہے ہیں۔
میئر تو اپنی کارگزاری سے بخوبی واقف ہیں تب ہی انہوں نے چھ ماہ قبل اس بات کا بلا جھجک یہ اظہار کرچکے ہیں کہ ’’میں جلد ہی ملک سے باہر یا اندر چلا جاؤں گا‘‘۔ کے ایم سی کے حالات نیب اور اینٹی کرپشن کو اس کے بارے میں گہرائی سے تحقیقات کرنے کی بھی دعوت دیتے ہیں۔ مگر شاید کرپٹ افسران کے ہاتھ نیب اور اینٹی کرپشن سے زیادہ لمبے اور مضبوط ہیں، تب ہی یہ ادارے برسوں گزر جانے کے باوجود ’’اوپن سیکریٹ‘‘ ڈاکو افسران تک نہیں پہنچ سکے!