اسلام آباد شہر اقتدار ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں اقتدار کی راہداریاں بہت رنگین اور روشن رہی ہیں۔یوں تو یہاں مارگلہ کی پہاڑیوں پر بہت سی نایاب جنگلی حیات کی موجودگی رہی ہے مگر تاریخ کے ہردور میں انسانی شکل میں مقامی اور غیر ملکی پراسر ار کرداربہ کثرت پائے جاتے رہے ہیں۔ یہی کردار بھی بہت سی داستانوں کا محور ومرکز بھی رہے ہیں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ ہماری سیاست رنگ وبو سے کبھی بے نیاز اور آزاد نہیں رہی اسی لئے جو اس داستان سے الگ اپنی موج کی مستی میںگم رہا سیاست کے بازار میں ’’مس فٹ ‘‘ ہو کر الگ ہوگیا یا وقت اسے روند کر بہت آگے نکل گیا ۔یہاں ترقی ایک مخصوص کلچر کے ساتھ ہی بریکٹ ہو کر رہ گئی ہے ۔اقتدار کی راہداریوں میں ترقی اور تنزل کے فیصلوں میں اسی رنگ ونور کا گہرا دخل رہا ہے ۔یہاں اقتدار کی راہداریوں میں اکثر سائلین ملتے ہیں جو کسی نہ کسی مقصد کے تحت فائل بغل میں دبائے تیزرفتاری کے ساتھ دائیں بائیں گھومتے نظر آتے ہیں مگر ایک معقول تعداد پرا سرار کرداروں کی بھی جابجا ملتی ہے جو بلاوجہ اور بے سبب اہم مقامات پر نظر آتے ہیں ۔ان پراسرار کرداروں کی رسائی اقتدار کے ایوانوں تک آسان ہوتی ہے اور کبھی کبھار یہ اتنے پراعتماد اور طاقتور ہوتے ہیں کہ پائوں کی ٹھوکر سے اہل اقتدار کا دروازہ کھولتے ہیں ۔ان کے نام کی پرچی اہم اجلاسوں کو برخواست یا مختصر کرنے کا باعث بنتی ہے اور اہل حکم دروازے تک انہیں خوش آمدید کہنے پہنچ جاتے ہیں۔اس طاقت اور اعتماد کا راز بہت کم لوگوں پر آشکار ا ہوتاہے ۔پاکستان کی سیاست کو اس رنگینی سے الگ کرنے کے لئے ہی آئین پاکستان میں کچھ دفعات کا بیرئیر باندھا گیا تھا مگریہ بیرئیر نمائشی ہی رہے کیونکہ کوئی صدق دل سے نہ انہیں مضبوط بنانا چاہتا تھا نہ خود اس پابندی کو قبول کرنا چاہتا تھا ۔اسی لئے آئین پاکستان کی یہ دفعات محض عجائب خانے میں رکھی نایاب شے یا کسی گھر کے ڈرائنگ روم میں حنوط پرندے سے زیادہ اہمیت حاصل نہ کرپائیں ۔ اس رویے کی ایک بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ نے سیاست کو عبادت یا خدمت سمجھنے کی بجائے محض طاقت اور دولت کمانے کا ذریعہ سمجھا اور اسی مائنڈ سیٹ کے تحت لمحہ ٔ موجود میںز ندہ رہنے کو ہی اول وآخر ترجیح بنائے رکھا ۔سیاست دانوں کی ذمہ داری اس لحاظ سے زیادہ ہے کہ وہ معاشرے کی قیادت کے دعوے دار ہوتے ہیں ۔معاشرہ ان کو رول ماڈل اور آئیڈیل سمجھتا ہے ۔ان کے فیصلے اور ادائیں معاشرے کا عمومی چلن بنتے ہیں اور آنے والی نسلوں تک اپنا اثر چھوڑتے ہیں۔اس لئے انہیں معاشرے سے اخلاقی اعتبار سے نسبتاََ الگ اور نمایاں ہونا چاہئے ۔بہت سے مغربی ملک اپنی قیادت کے لئے اس میعار پر سختی سے قائم ہیں مگر ہمارے ہاں معاملہ بالکل اُلٹ ہے ۔ہماری سیاست کی راہداریوں میں رقم ہونے والی انہی داستانوں کو ایک صحافی نے نوے کی دہائی میں ’’پارلیمنٹ سے بازار حسن تک ‘‘نامی کتاب میںجمع کیا تھا ۔یہ مواد زیادہ تر اخبارت کی سننسی خیز خبروں پر مبنی تھا اور اس میں بہت کم نیا پن تھا ۔اسی کی دہائی کے اواخر میں تہمینہ درانی کی کتاب’’ مائی فیوڈل لارڈ‘‘ اور اس کے بعد ایک غیر ملکی پراسرار کردارکرسٹینا لیمب کی کتاب’’ ویٹنگ فار اللہ‘‘ میں بھی ہمارے بالائی طبقات کی راہداریوں کے کلچر کا کچھ اندازہ ہوتا ہے ۔اس کے بعد بھی بہت سی تہلکہ خیزداستانیں تحریری یا غیر تحریری شکل میں سامنے آتی رہیں۔یہ پراسرار کردار صرف ہمارا ہی مقدر نہیں دنیا میں اور بہت سے ملکوں میں ایسے کردار کچھ عرصہ اس معاشروں کے اندر رہ کر انکشافات سے طوفان برپا کر تے رہے ہیں ۔ سعودی عرب ،ایران سمیت بہت سے مسلمان اور افریقی ممالک میں یہ کھیل تماشے ہونہی جا ری رہتے ہیں۔سعودی شاہی خاندان کی اندرونی کہا نیوں کو جین سیسن نامی خاتون نے’’ ڈاٹرز آف عربیا‘‘ کے عنوان سے اپنے قلم کا موضوع بنایا تھا۔ یہ کتاب شاہی خاندان کی عورتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پرمبنی واقعات کے گرد گھومتی تھی۔ ان دنوں ایک امریکی خاتون سنتھیا رچی ایسے ہی ایک پراسر ار کردار کی صورت میں سامنے آئی ہیں ۔سنتھیا رچی نے انکشافات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر کے کئی ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے لئے نیا ’’پنڈروہ باکس ‘‘ کھول رکھا ہے ۔سنتھیا رچی ایک امریکی خاتون ہیں اور ٹویٹر کو اپنی کمان بنا کر وہ اس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہیں ۔ان کاممکنہ اگلا ہدف مسلم لیگ ن اور پھر پی ٹی آئی بھی ہو سکتی ہے ۔سنتھیا رچی ایک عشرے سے اسلام آباد میں مقیم ہیں اور وہ پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی ہم راز اور شناور دکھائی دیتی ہیں ۔پاکستان کے عوام تو اپنے حکمرانوں کو بہت دور سے دیکھ کر تالی بجا کر اور نعرے لگا کر ہی خوش ہوتے ہیں مگر امریکی خاتون لگتا ہے کہ انہیں بہت قریب سے دیکھ اور جان چکی ہیں ۔یہ اقتدار کی راہداریوں کا ایک ایسا ہی طاقتور اور بااثر پراسر ار کردار رہاہے جن کے ا شارہ ٔ ابرو بہت سے گھمبیر مسائل کے لئے ’’کھل جا سم سم ‘‘ کا کام دیتا رہا ہے۔سنتھیا رچی یہ بتارہی ہیں کہ ان کا سینہ ناخوش گوار واقعات اورتلخ یادوں کا قبرستان ہے ۔ظاہر سنتھیا رچی پیپلزپارٹی کی قیادت پر زیادتی اور نازیبا حرکات کا الزام عائد کر رہی ہیں اور وہ اپنے لئے انصاف کی طلب کار ہیں ۔پوچھنے والے حق بجانب ہیں کہ دس سال تک ان کی یاداشت کہاں کھوگئہ تھی کہ انہیں اب زیادتی اور اس کے ازالے کا خیال آگیا ۔سنتھیا رچی بہت کائیاں خاتون ہیں اور وہ ہر اعتراض کا ٹویٹر کے ذریعے جواب دے رہی ہیں ۔پیپلزپارٹی ان کے الزامات کے خلاف بھرپور لڑائی لڑ رہی ہے مگر سنتھیا رچی ایک ماہر مداری کی طرح اپنی ٹوکری سے الزام کا نیا سانپ برآمد کرکے پارٹی کو مضمحل کرنا اور تھکا دینا چاہتی ہے۔سنتھیا رچی کون تھی ؟اور اس قدر طویل عرصے تک پاکستان میں کس مشن پر مامور رہیں ؟یہ سب باتیں تحقیق طلب ہیں۔ اکثر ایسے پراسرار لوگ ڈبل رول کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک طرف کی معلومات کو دوسری جانب پہنچانے کے ساتھ ساتھ وہ یہاں کی خبر وہاں پہنچانے کا فریضہ بھی ادا کرتے ہیں ۔ یہ بات تو بڑی حد تک واضح ہے کہ سنھتیا رچی یہاں کی خبر وہاں دیتی تھیں تو وہاں کی خبر یہاں مگر وہ خبر کیا ہوتی ہے؟ یہ اور دوسرے معاملات تحقیق طلب ہیں۔