کورونا! چند غلط فہمیاں

552

ڈاکٹر جبران
عوام کے رجحانات ،فکر اور عملی رویوں کے محرکات کی تشکیل میں ذرائع ابلاغ کے کردار کی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔اس سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ لہٰذا یہ اہل صحافت کی ذمے دار ی ہے کہ واقعات کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کریں اور منفی پہلوکو صرف اسی وقت بیان کریں جب کہ ان کے بیان سے عوام کے رویوں میں کسی مثبت تبدیلی کی توقع ہو۔ اخبارات و رسائل ایسے مضامین سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں جن میں یا تو تنقید ہوتی ہے یا ہرزہ سرائی یا کسی کی سازش و مفاد پرستی کے تذکرے۔ آج کل بھی کورونا کے حوالے سے جومضامین آرہے ہیں ان کا بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے اور محض ذہنی انتشار کا سبب بن رہے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ وضاحتوں کی ضرورت محسوس ہوئی جو فی الوقت جنبش قلم کی محرک بنی۔ یہ ایک ادنیٰ سی کوشش ہے کورونا کے حوالے سے چند حقائق سے آگاہی کے لیے اور یہ بتانے کے لیے بھی کہ صحافت وادب سے متعلقہ افراد کا ایک ایک لفظ کتنا موثر ہوتا ہے منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں سے۔ لہٰذا معاشرے کو بے یقینی اور اضطراب کی فضا سے نکالنے کے لیے مثبت عنوانات اور نفس مضامین میں مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔
اس وقت پوری دنیاایک ایسی عالمی وبا کے عذاب میں مبتلا ہے کہ جس نے کاروبار زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ اس وبا کی روک تھام کے لیے عالمی ادارہ صحت کا مجوزہ حل سوشل ڈسٹینسنگ اور ہینڈ واشنگ کو بزور نافذ کرنے کے لیے لاک ڈاؤن کا طریقہ وضع کیا گیا۔ اگرعوام باشعور اور تربیت یافتہ ہوں تو تمام تر مجوزہ احتیاطوں، قرنطینہ کے طریقوں اور کچھ مزید انتظامی تبدیلیوں کو اختیار کرکے بغیر لاک ڈاؤن کیے اس وبا کوپھیلنے سے روکاجاسکتا ہے لیکن یہ ایک بہت ہی آئیڈیل صورت حال ہے۔ یہ صورت حال کسی حد تک ہمیں ناروے میں نظر آئی ہے۔ ناروے تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ کی آبادی والی ایک فلاحی ریاست ہے جہاں پہلا کووڈ 19 پازیٹو کیس 26فروری 2020 کو سامنے آتے ہی حکومت متحرک ہو گئی اور تمام احتیاطی تدابیر کی تشہیر اور بچاؤ کی انتظامی حکمت عملی کانفاذ شروع ہو گیا۔ عوام کیونکہ باشعور ہیں جس کا لٹریسی ریٹ اخباری اطلاعات کے مطابق 100فی صد ہے اور قانون کی پابندی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لاک ڈاؤن سے پہلے تیزی سے وائرس کے پھیلاؤ میں کمی آتی رہی۔ ایک اور بڑی وجہ وہ wide spread testing کا نظام تھا جو فوری طور پر شروع کر دیا گیا تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پھیلاؤ انتہاپر پہنچ گیا تھا اور پھر نیچے آیا بلکہ ابتداء ہی میں پھیلاؤ کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں نسبتاً کم رہی۔ لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی غیر ضروری ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ناروے جیسے ملک میں بھی بالآخر پھیلاؤ پر مکمل قابو پانے کے لیے 12 مارچ کو لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا۔ ناروے حکومت ایسا کرنے پرمجبور تھی۔ کیوں؟ اس کی آگاہی کے لیے چند فطری حقائق کا ادراک بہت ضروری ہے وہ یہ کہ جب بھی کوئی عالمی وبا پھیلے گی خاص کر ایسی وبا جس کے جرثومے کی جزئیات سے دنیا مکمل طور سے واقف نہیں ہو گی تو لازماً احتیاط کے تقاضے کے طور پرجو طریقے بھی صحت کے عالمی اداروں کی جانب سے تجویز کیے جائیں گے انہیں لامحالہ اختیار کرنا ہوگا۔ لہٰذا لاک ڈاؤن پھیلاؤ روکنے کی ایک حکمت عملی ہے جسے موثر بنانا حکومت اور عوام کی یکساں ذمے داری ہے۔
دوسرے۔ کورونا کی آگاہی کے حوالے سے میڈیا کی کوششوں کو ’’خوف پھیلانے‘‘ کا نام دیا جارہا ہے جس سے عوام میں منفی رجحانات پرورش پا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ بات قابل فہم ہے کہ جب بھی کوئی نئی وبا پھیلے گی تو عوام کو اس سے اسی طرح با خبر کیا جائے گا اور اس کے لیے الیکٹرونک اور پرنٹ ہر قسم کا میڈیا استعمال کیا جائے گا اسے آپ خوف پھیلانا کہہ کر اپنی تسلی کرلیں جیسا کہ کچھ لکھاری ایسا لکھ لکھ کر شعبہ صحت کی جانب سے جاری آگاہی مہم کو غیر موثر بنا رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی جتنی وبائیں pandemic کی صورت میں آئیں مثلا چیچک اور خسرہ ان کا بھی یہی معاملہ تھا ان کے جرثومے (وائرس) ہر ہونے والی تحقیقات اور اس کے خلاف ویکسین کی دریافت کا درمیانہ عرصہ ڈیڑھ دو صدی پر مشتمل ہے۔ اس دوران میں بیماری سے آگاہی بھی دی جاتی رہی،احتیاط بھی بتائی جاتی رہی اور وائرس پر ریسرچ بھی ہوتی رہی با لآخر ویکسین کی ایجاد پر معاملہ ختم ہوا۔ یہی معاملہ کورونا کے وائرس اور اس سے پھیلنے والی بیماری کابھی ہے۔
دوسری ایک اہم بات یہ ہے کہ ابھی بیماری تحقیق کی زبان میں evolution کے پروسس میں ہے اب تک اس کے جرثومے کے چودہ strains دریافت ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود صرف اس کی انفیکشس ڈوز کا ہی پتا نہیں لگایا جا سکا۔ تحقیقات ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی اور بالآخر کسی ویکسین یا کسی دوا کی دریافت پر منتج ہوگی۔ اس میں کتنا عرصہ لگے گا واللہ اعلم لیکن اس پورے عرصے میں احتیاط کے تقاضے کے طور پر پھیلاؤ روکنے کے لیے بہت سی حکمت عملیاں اختیار کی جائیں گی، وہ موثر بھی ثابت ہو سکتی ہیں اور غیر موثر بھی۔ لہٰذا اس دوران کسی ملک کے سربراہ کی طرف سے ایسا بیان جس میں پچھلے اقدامات پر سوال اٹھایا گیا ہو یا کسی حکمت عملی کے غلط ہونے کا اعتراف کیا گیا ہو، بالکل ایک فطری بات ہے ایسی صورت حال میں دراصل ایک ارتقائی عمل ہے ظاہر ہے کہ بہت سی باتیں وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ میںآتی ہیں اسے اس طرح تحریر و بیان میں لانا کہ جیسے اس کے پیچھے کوئی سازش تھی یا مذموم مفادات کے حصول کی کوئی کوشش تھی،دراصل معاشرے میں عدم اطمینان اور عدم تحفظ کا سبب بنتا ہے۔
اسی طرح کورونا کیسز اور اس سے ہونے والی اموات کےdata سے متعلق معلومات پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک پیچیدہ اور مختلف مدارج پر مشتمل طویل مرحلہ ہے جس میں انسانی غلطی کا امکان رہتا ہے مثلاً اسپتال ریکارڈ میں مریض کی موت کی وجہ لکھنے میں کوئی غلط فہمی جس کا انحصار ڈاکٹر کے تجربے اور وارڈ میں کام کی زیادتی پربھی ہوتا ہے۔ خصوصاً جب کورونا پازیٹو مریض نزلہ زکام یا کسی اور بیماری کا بھی شکار ہو تو ایسے میں موت کی وجہ معلوم کرنے میں غلطی کا احتمال ہوسکتا ہے۔ پھر ایک اور اہم بات جو جاننی ضروری ہے وہ یہ کہ عالمی وبا کے دوران جو مریض اسپتال میں کسی دوسری بیماری کی وجہ سے داخل ہوتے ہیں ان سب کا کورونا ٹیسٹ کروانا لازمی ہوتا ہے تاکہ پازیٹو ہونے کی صورت میں دوسرے داخل شدہ مریض اور خود ڈاکٹر اورعملہ کو اس مریض سے متاثرہونے سے بچایا جا سکے اور حیرت انگیز طور پر ایسے زیادہ تر مریضوں کا ٹیسٹ پازیٹو نکلتا ہے۔ اس اصولی بات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ شور مچاتے ہیں کہ کورونا کی علا مات نہیں تھیں اور کورونا میں ڈال دیا۔ یہ اور دوسرے بہت سے ٹیکنیکل عوامل ہیں جن کا اثر ڈیٹا کی تیاری پر پڑتا ہے لیکن اس کے پیچھے کسی کے مفادات کا تحفظ، سازش یا سیاست نہیں ہوتی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایسے وبائی ماحول میں ایسے مضامین تحریر کیے جائیں جو عوام کو ابہام اور عدم اعتماد کی فضا سے نکالنے کا کام کریں تا کہ وہ ایک طرف سنجیدگی سے اس وبا کے خلاف احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر راضی ہوں تو دوسری طرف شعبہ صحت ،ڈاکٹرز اور نرسز کے خلاف ایسی تکلیف دہ باتیں نہ کریں جو ان کے حوصلوں کو پست کرے یہی تو وہ لوگ ہیں جو اپنی جان کی پروا کیے بغیر عوام کو اس بیماری سے آگاہ کرنے اور ان کی جانیں بچانے میں جتے ہوئے ہیں اور کتنے ہی ہیں جو اس محاذ پر لڑتے ہوئے خود اپنی جان کی بازی ہار چکے۔