چین سے چھیڑ چھاڑ پر بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے

358

سمیع اللہ ملک

بھارت اورچین کے درمیان سرحدی کشیدگی نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا ہےاس سے قبل2017ء میں بھارت اور چین کی افواج ڈوکلام کے مقام پرآمنے سامنے آئی تھیں لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے لداخ سمیت بھارت اورچین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی)کے مختلف مقامات پردونوں جانب سے افواج کی موجودگی میں اضافہ دیکھاجارہاہے جوپہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ سرحدی تنازع اس قدرکشیدہ ہے کہ بھارتی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ مودی نے گزشتہ دنوں بری، بحری اورفضائیہ تینوں افواج کے سربراہوں اورقومی سلامتی کے مشیراجیت ڈوول سے مشورہ کیاہے جس کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے تینوں افواج کے سربراہان اورچیف آف ڈیفنس اسٹاف بپن راوت سے علاحدگی میں بات چیت بھی کی ہے۔ان دونوں ملاقاتوں کاپیش خیمہ رواں ماہ ایل اے سی پرکم ازکم 4 مقامات پر چین اور بھارت کی افواج کے درمیان جھڑپ رہی ہے۔لداخ میں پینگونگ ٹیسو،گالوان وادی اور دیمچوک کے مقامات پردونوں افواج کے درمیان جھڑپ ہوئی جبکہ مشرق میں سکم کے پاس بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے ہیں، تاہم بری فوج کے سربراہ جنرل منوج نراونے نے کہاہے ان دونوں علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں میں کوئی تعلق نہیں۔ اُدھر 3 جون کو بھارتی فوج کی تین روزہ ششماہی کانفرنس میں اعلیٰ کمانڈرز نے انڈین فوج کی اعلیٰ سطح کی قیادت نے سیکورٹی کی تازہ صورتحال،انتظامی چیلنجزپرغوروخوض سمیت بری فوج کے مستقبل کامنصوبہ تیار کیاگیا۔ دوسری جانب بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق چینی صدرنے انتہائی خراب صورتحال کے پیش نظراپنی فوج کو جنگ کے لیے تیار رہنے اورملک کی سالمیت کامضبوطی سے دفاع کرنے کاکہاہے۔
66برس کے شی جن پنگ حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کے جنرل سیکرٹری نے حال ہی میں ایک پارلیمانی سیشن میں پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے)اور پیپلز آرمڈ پولیس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کیا ہے۔ چین کی سرکاری خبررساں ایجنسی کے مطابق شی جن پنگ نے فوج کو خراب ترین صورتحال کے لیے تیار، اپنی تربیت اورجنگی تیاری کی سطح میں اضافہ کرنے تاکہ فوری طور پر ہرقسم کی پیچیدہ صورتحال سے مضبوطی سے نمٹ سکنے،قومی سلامتی، سیکورٹی اور ترقیاتی مفادات کا دفاع کرنے کی تیاری کا کہا ہے۔ بہرحال چینی صدرنے ملک کودرپیش کسی خاص مسئلے کاذکرنہیں کیا۔ لداخ میں سرحدکے نزدیک چینی فوج کے ہیلی کاپٹربھی پروازکر رہے ہیں جبکہ دیمچوک،دولت بیگ اولڈی،دریائے گلوان اور پینگونگ سوجھیل کے اطراف میں بھارتی اورچینی فوج نے اپنی تعیناتی میں اضافہ کیاہے اوردونوں نے اپنے اپنے علاقے کی جھیلوں میں کشتیوں کے گشت میں بھی اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے چین کے سرکاری میڈیا میں کہاگیا کہ مغربی سیکٹر کی گلوان وادی میں بھارت کی جانب سے یکطرفہ اور غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے موجودہ صورتحال کوبدلنے کی کوشش کے بعدپیپلزلبریشن آرمی نے اپناکنٹرول سخت کردیا ہے۔
مشرقی لداخ میں پینگونگ سوجھیل کے نزدیک پانچ اورچھ مئی کوچینی اور بھارتی فوجیوں کے درمیان ہاتھاپائی ہوئی تھی۔ بھارتی میڈیا نے انٹیلی جنس ماہرین کے حوالے سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ چین پینگوگ جھیل سے200کلومیٹرکے فاصلے پراپنے ائربیس پربڑے پیمانے پرتعمیراتی کام کررہاہے۔ اس نے 6 اپریل کی ایک سٹیلائٹ تصویرپیش کی ہے جو21مئی کی سیٹلائٹ تصویرسے بالکل مختلف ہے۔ اس سے قبل بھارت نے کہاتھاکہ چینی فوج کے کچھ خیمے چین میں وادی گالوان کے ساتھ دیکھے گئے ہیں۔اس کے بعد بھارت نے بھی وہاں فوج کی تعیناتی میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین کا الزام ہے کہ بھارت وادی گالوان کے قریب دفاع سے متعلق غیر قانونی تعمیرات کر رہا ہے۔
پاکستان نے بھی اپنے ردِ عمل میں بھارت کی جانب سے متنازع علاقے میں تعمیرات کوخطے میں امن واستحکام کے لیے شدیدخطرہ قراردیتے ہوئے دنیا کو بھارتی عزائم اورجارحیت کا نوٹس لینے کا کہا گیا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا ہنا ہے کہ بھارت کو کبھی نیپال سے مسئلہ ہوجاتاہے اورکبھی افغان امن عمل میں رخنہ اندازی کی کوشش کرتا ہے تو کبھی یہ بلوچستان میں شورش کو ہوادیتاہے اوراب بھارت نے لداخ میں وہی حرکت کی ہے اورالٹاچین کوموردالزام ٹھہرارہاہے۔
بھارت اورچین کاسرحدی تنازع بہت پراناہے اور1962ء کی جنگ کے بعد یہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان 3 ہزار488کلومیٹرکی مشترکہ سرحد ہے، جو جموں وکشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، سکم اور ارونا چل پردیش میں بھارت سے ملتی ہے اوراس سرحد کو 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مغربی سیکٹریعنی جموں وکشمیر، مڈل سیکٹر یعنی ہماچل پردیش اوراتراکھنڈاورمشرقی سیکٹریعنی سکم اوراروناچل پردیش۔ بہرحال بھارت اورچین کے درمیان سرحد کی مکمل حد بندی نہیں ہوئی اورجس ملک کاجس علاقے پرقبضہ ہے اسے ایل اے سی کہا گیاہے تاہم دونوں ممالک ایک دوسرے کے علاقے پر اپناعلاقہ ہونے کادعویٰ کرتے رہے ہیں جوکشیدگی کاباعث ہے۔ بھارت مغربی سیکٹرمیں اکسائی چین پراپنادعویٰ کرتا ہے لیکن یہ اس وقت چین کے کنٹرول میں ہے۔ 1962ء کی جنگ کے دوران چین نے اس پورے علاقے پرقبضہ کرلیاتھا۔دوسری جانب چین مشرقی سیکٹرمیں اروناچل پردیش پر اپنادعویٰ کرتا ہے۔ چین کاکہناہے کہ یہ جنوبی تبت کاایک حصہ ہے۔ چین، تبت اوراروناچل پردیش کے مابین میک موہن لائن کوبھی قبول نہیں کرتا اور اس نے اکسائی چین سے متعلق بھارتی دعوے کومستردکردیاہے۔
سابق سفیر اور بھارت چین امورکے ماہر پی سٹوبدان نے اپنے مضمون میں لکھاہے کہ تازہ کشیدگی کو صرف ایل اے سی کی خلاف ورزی کے طورپرنہیں دیکھاجاسکتا ہے۔جب بھارت نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370اور35اے کوہٹاکرلداخ کومرکزکے زیرانتظام علاقہ قراردیاتھاتوچین نے اس پرسخت تنقیدکی تھی اور اسے ناقابل قبول اورچین کی سالمیت کی خلاف ورزی قراردیاتھایہاں تک کہ اس نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں بھی اس معاملے کواٹھایاتھا۔
بنارس ہندویونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور چین بھارت تعلقات پرکئی کتابوں کے مصنف کیشومشرانے بھی کہا ہے کہ بھارت اورچین کے درمیان سرحدی کشیدگی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اس پرسب سے پہلے1996ء میں دیوگوڑاحکومت نے چیانگ زیمن کے ساتھ ایک لیگل فریم ورک پراتفاق کیاتھاجس کے تحت ایل اے سی پرزیادہ سے زیادہ پرامن رہنے اور کشیدگی کوکم کرنے اورصبر وتحمل کامظاہرہ کرنے کی باتیں سامنے آئی تھیں اوراس سے قبل راجیو گاندھی بھی جب چین کے دورے پرگئے تھے تواس وقت بھی سرحدی تنازع ہی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ قرارپایاتھا۔تاہم 2010ء کے بعد سے سرحدی تنازع میں اضافہ دیکھا گیا اور بھارت نے جب سے سرحد کے قریب سڑک کی تعمیرات کاکام تیز کیا ہے اس پرچین کی گہری نظرہے۔ چینی میڈیا میں اس سرحدی تنازع کوکوئی زیادہ اہمیت نہیں دی جارہی لیکن بھارت میں قوم پرست میڈیامیں اس پرخاطر خواہ توجہ دی جارہی ہے۔ بھارت اورچین کی سرحد پر تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک ایل اے سی پراپنی فوج کی موجودگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔
اکسائی چین میں موجود وادی گالوان کے سبب دونوں ممالک کے مابین تناؤکی ابتداہوئی تھی۔چین کا الزام ہے کہ بھارت وادی گالوان کے قریب دفاع سے متعلق غیر قانونی تعمیرات کر رہا ہے جبکہ بھارت کے مطابق وادی گالوان کے اطراف میں چینی فوج کے کچھ خیمے دیکھے گئے جس کے بعد بھارت نے بھی وہاں فوج کی تعداد میں اضافہ کیا۔9مئی کو شمالی سکم میں بھارتی اورچینی فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔اسی دوران لداخ میں ایل اے سی کے قریب چینی فوج کے ہیلی کاپٹردیکھے گئے۔اس کے بعد بھارت نے بھی دوسرے لڑاکا طیارے بشمول سوخوئی کے ساتھ بھی گشت شروع کردیا۔ ائرفورس کے سربراہ بھڈوریاکے مطابق ’’وہاں کچھ غیرمعمولی سرگرمیاں دیکھی گئیں۔اس طرح کے واقعات پرہم گہری نظراورضروری کارروائی بھی کرتے ہیں، تاہم ایسے معاملات میں زیادہ تشویش کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔اسی دوران آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے نے گزشتہ ہفتے دونوں ممالک کی فوجوں کے مابین تصادم کے بعدکہاتھاکہ چین کی سرحد پر بھارتی فوج اپنی جگہ پرقائم ہے اورسرحدی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کے لیے ترقیاتی پروگرام پر کام جاری ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان جھڑپوں میں دونوں ملکوں کی افواج کے جوانوں کا سلوک جارحانہ تھا، لہٰذا انہیں معمولی چوٹیں آئی ہیں۔
چین نے بھارت کو اس تناؤکی وجہ قرار دیا ہے۔ چینی اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق بھارت کو دریائے گالوان (وادی) کے خطے میں کشیدگی کاذمے دارٹھہرایاگیاہے۔ بھارت نے اس علاقے میں دفاع سے متعلق غیرقانونی تعمیرات کی ہیں جس کی وجہ سے چین کو وہاں فوجی تعیناتی میں اضافہ کرناپڑاہے۔ بھارت نے اس کشیدگی کی ابتدا کی ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہان ڈوکلام جیسی صورتحال پیدانہیں ہوگی جیساکہ 2017ء میں ڈوکلام میں ہوا تھا۔ بھارت کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی پریشانیوں سے دوچار ہے اور اس نے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے گالوان میں تناؤپیداکیا۔ وادی گالوان ایک چینی علاقہ ہے۔ بھارت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے دونوں ملکوں کے مابین سرحدی معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ بھارت مئی کے آغاز ہی سے وادی گالوان میں سرحد عبور کرکے چینی سرزمین میں داخل ہورہاہے۔
وادی گالوان کامتنازع علاقہ گالوان، وادی لداخ اوراکسائی چین کے درمیان ہند-چین سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہاں(ایل اے سی)چین کو بھارت سے الگ کرتا ہے۔ بھارت اور چین دونوں اکسائی چین پراپنی ملکیت کادعویٰ کرتے ہیں۔ یہ وادی چین میں جنوبی سنکیانگ اور بھارت میں لداخ تک پھیلی ہوئی ہے۔جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق پروفیسراور بین الاقوامی امورکے ماہرایس ڈی منی نے بتایا کہ یہ علاقہ بھارت کے لیے اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم ہے کیونکہ یہ پاکستان، چین کے سنکیانگ اور لداخ کی سرحدوں سے متصل ہے۔ یہاں تک کہ 1962ء کی جنگ کے دوران دریائے گالوان کا یہ علاقہ جنگ کا مرکز تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت اپنے بیرونی آقاؤں کی شہ پر گلگت بلتستان پرفوجی جارحیت کرکے سی پیک منصوبے کوسبوتاژکرنے کی تیاریوں میں مصروف تھااوریہی وجہ ہے کہ پچھلے کئی ہفتوں سے چترال سے لیکرگلگت تک پاکستانی افواج بھارت کے اس مکارانہ حملے کاجواب دینے کے لیے پوری طرح چوکس ہیں۔چین کے ساتھ لداخ میں چھیڑچھاڑکامقصدچین کو مصروف اورسی پیک سے توجہ ہٹانامقصودتھالیکن اب لداخ کاواہ راستہ جہاں سے بھارت پاکستان کے خلاف سازش کرکے پاک چین مشترکہ منصوبے سی پیک کونقصان پہنچانے کاسوچ رہاتھا، وہ بری طرح اور مکمل طورپرناکام ہوچکاہے تاہم بھارتی میڈیاچین سے جوتے کھانے کے بعداپنی شرمندگی اورخفت مٹانے کے لیے پاکستان کو دھمکیاں دینے پر اُتر آیا ہے۔