کوئی قیامت نہیں ٹوٹے گی!

451

وزیر خارجہ محمود قریشی نے فرمایا ہے کہ بھارت سلامتی کونسل کا رکن بن بھی گیا تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹے گی ۔ شاہ محمود قریشی کا یہ فرمان اس لیے بھی درست ہے کہ بھارت سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن تو کیا مستقل رکن بھی بن جائے اور اس کو ویٹو پاور کے حقوق بھی حاصل ہوجائیں تو پاکستان پر اس لیے فرق نہیں پڑنا کہ بھارت سے وجہ تنازع مقبوضہ جموں و کشمیر ہے اور پاکستان عملی طور پر اپنی شہ رگ سے دستبردار ہوچکا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان نے بھارت کے سامنے ہر معاملے پر سپر ڈال دی ہے ۔ کنٹرول لائن پر روز فائرنگ کا معاملہ ہو ، پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات ہوں یا پاکستان آنے والے دریاؤں پر بھارت 70 سے زاید ڈیم بنا کر پاکستان کو خشک سالی کا شکار کردے یا پھر اچانک اسے سیلاب سے دوچار کردے ، پاکستان کے حقیقی اور مجازی حکمرانوں نے سوچ لیا ہے کہ بھارت کے سامنے اُف نہیں کرنی ۔ جب بھارت کے سامنے آواز ہی بلند نہیں کرنی تو پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ بھارت کی عالمی اداروں میں کیا حیثیت ہے ۔ سلامتی کونسل میں پاکستان جب کوئی معاملہ لے کر جائے گا تو پھر بھارت کے اس کا رکن ہونے سے فرق پڑے گا۔ شاہ محمود قریشی کو یا پھر ان کے سلیکٹروں کو یا تو اس کا علم نہیں ہے یا پھر وہ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں کہ پاکستانیوں پر قیامت تو 5 اگست کو اس وقت ہی ٹوٹ پڑی تھی جب بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا تھا اور شاہ محمود قریشی نے خاموش رہ کر بھارت کا ساتھ دیا تھا ۔ شاہ محمود قریشی اور ان کے سلیکٹرو ںکی خاموشی سے مزید ہمت پا کر بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کو باقاعدہ بھارت میں ضم کرلیا ، اس پر بھی شاہ محمود قریشی پر کوئی قیامت نہ ٹوٹی تو مودی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کا ڈومیسائل قانون ہی تبدیل کردیا ۔ شاہ محمود قریشی پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلسل لاک ڈاؤن پر بھی کوئی قیامت نہیں ٹوٹی ۔ شاہ محمود قریشی اور ان کے سلیکٹروں پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے مسلسل کشمیری نوجوانوں کو شہید کرنے اور ان کی ماؤں بیٹیوں کی آبرو ریزی سے بھی کوئی قیامت نہیں ٹوٹی ۔ شاہ محمود قریشی اور ان کے سلیکٹروں پر آخر قیامت ٹوٹے بھی تو کیوں کہ بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بنوانے میں شاہ محمود قریشی کی عملی کوششیں شامل ہیں ۔ بھارت کوسلامتی کونسل میں ایشیا کی نشست پر غیر مستقل رکن بنوانے کے لیے نہ صرف شاہ محمود قریشی نے بھارت کو ووٹ دیا بلکہ دوست ممالک سے بھی اپیل کی کہ وہ بھارت کو ووٹ دیں ۔ بھارت کی صورتحال یہ ہے کہ اس نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دو ارکان پر لغو الزامات لگا کر پاکستان بھیج دیا مگر پاکستان کی طرف سے ردعمل تو دور کی بات ، اُف تک نہیں نکلی ۔ روز ہی بھارت میں پاکستانی ہائی کمیشن سے تعلق رکھنے والے افراد اوران کے اہل خانہ کا بھارتی خفیہ ایجنسی کے اراکین تعاقب کرکے ہراساں کرتے ہیں ، مگر پاکستان کی جانب سے اپنے اراکین کی حفاظت کے لیے بھی کوئی آواز نہیں ۔ اسلام آباد میں پیر کو بھارتی ہائی کمیشن کے دو اراکین نے ٹریفک حادثے میں دو پاکستانی شہریوں کو زخمی کردیا مگر پاکستانی حکام نے انہیں باعزت طریقے سے واپس جانے دیا ۔ بھارتی ہائی کمیشن کے اراکین نے نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ کی بلکہ فرار ہونے کی بھی کوشش کی ۔ ان کے پاس سے جعلی پاکستانی کرنسی بھی برآمد ہوئی ، اس کے باوجود ان پر نوازشیں سمجھ سے بالا تر ہیں ۔ اگر یہی حرکت پاکستانی ہائی کمیشن کے اراکین سے بھارت میں سرزد ہوتی تو بھارتی حکام پاکستانی سفارتکاروں کو نہ صرف حراست میں رکھتے بلکہ ان پر بدترین تشدد بھی کرچکے ہوتے ۔ شاہ محمود قریشی اور ان کے سلیکٹر بس اتنا بتادیں کہ وہ آخری حد کہاں پر ہے جس کے بعد قیامت آئے گی ۔ کیا وہ اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ خاکم بدہن بھارت آزاد کشمیر ، گلگت اور بلتستان پر بھی قبضہ کرلے ۔ کیا قیامت ٹوٹنے کے لیے وہ اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ بھارت پاکستانی پنجاب پر بھی قبضہ جمالے ۔بہتر ہوگا کہ شاہ محمود قریشی اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں اور ان کے سلیکٹر بھی ہوش کے ناخن لیں ۔