غزوہ خندق کا منظر

280

حافظ محمد ادریس
جنگ خندق خطرات اور ہولناکی کے نقطۂ نظر سے بڑی سخت جنگ تھی۔ اسی جنگ کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے۔ پورا ایک مہینہ اہلِ مدینہ پر اتنا بھاری تھا کہ اس کا ایک ایک لمحہ پہاڑ معلوم ہوتا تھا۔ کئی اہل ِایمان شہید ہوگئے تھے۔ بھوک اور فقر و فاقہ کے ساتھ موسم کی شدت و حِدت نے مشکلات کو دوچند کر دیا تھا۔
باہر کی جانب پورا عرب امنڈ آیا تھا اور مدینہ کے اندر بنو قریظہ مار آستین بنے خباثت اور شیطنت پر تلے کھڑے تھے۔ یہ سارے حالات قرآن کی سورہ الاحزاب، حدیث کے تمام مجموعوں اور سیرت کی کتب میں تفصیلاً بیان ہوئے ہیں۔ اتنے بڑے معرکے میں یہ بات تعجب انگیز ہے کہ فریقین کا جانی نقصان بہت کم ہوا۔ مسلمانوں میں سے آٹھ صحابہ نے جام شہادت نوش کیا جبکہ کافروں میں سے چار جنگجو واصل جہنم ہوئے۔ دراصل خندق نے ایسا معجزہ کر دکھایا کہ اتنی بڑی جنگ کے باوجود انسانی جانوں کی حفاظت کا ایک بہترین انتظام میسر آ گیا۔ مسلمانوں کے تمام شہدا انصار میں سے تھے۔ اتفاق سے اس جنگ میں کسی مہاجر صحابی کی قسمت میں شہادت کا رتبہ نہیں لکھا گیا تھا۔ انصار میں سے جو لوگ شہید ہوئے ان میں سب سے مشہور شخصیت سیدنا سعد بن معاذؓ کی تھی۔
سیدنا سعد بن معاذؓ: آپ قبیلہ اوس کے سردار اور بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے۔ سیدنا مصعب بن عمیرؓ کی کوششوں سے مسلمان ہوئے اور قبول اسلام سے پہلے اپنے سارے قبیلے کے مرد و زن کو جمع کرکے ان سے پوچھا: ’’میرے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ انہوں نے یک زبان ہو کر جواب دیا: آپ ہمارے سردار ہیں، ہمارے سردار کے بیٹے ہیں، ہم سب سے زیادہ سمجھدار اور ذہین ہیں‘‘۔
سعدؓ نے فرمایا: ’’اگر میرے بارے میں تمہارا یہ خیال ہے تو پھر سن لو کہ میں اسلام میں داخل ہو چکا ہوں۔ جب تک تم بھی اللہ کی وحدانیت اور محمدؐ کی رسالت پر ایمان نہیں لاؤ گے، میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ سعدؓ قبیلہ اوس کے درمیان اتنے معزز و محترم اور قابل اعتماد تھے کہ ان کی بات سن کر پورے کا پورا قبیلہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ سعد بن معاذؓ نے اپنے اثر ورسوخ کو دعوت اسلام کے لیے وقف کر دیا تھا۔ سیدنا مصعب بن عمیرؓ کو انہوں نے قبول اسلام کے بعد اپنا مہمان بنا لیا تھا اور ان کا گھر مدینہ میں اسلام کا مرکز بن گیا تھا۔ سعدؓ کا تذکرہ غزوہ بدر اور غزوہ احد دونوں جنگوں میں آتا ہے۔ ان کے کارنامے نبی پاکؐ اور تمام صحابہ نے دیکھے تھے اور ان کی تحسین فرمائی تھی۔ جنگ خندق میں بھی انہوں نے اپنے شایان شان حصہ لیا۔ خندق کی کھدائی سے لے کر دشمن کے مقابلے پر ڈٹ جانے تک اور احزاب کے مقابلے میں جرأت مندانہ اور حکیمانہ مشورہ دینے سے لے کر بنو قریظہ کے متعلق فیصلہ دینے تک ہر مقام پر وہ ممتاز اور منفرد نظر آتے ہیں۔ سعد جیسے سپوت واقعتاً مائیں کبھی کبھی ہی جنا کرتی ہیں۔ جب سیدنا سعدؓ زرہ پہنے خندق کی طرف روانہ ہوئے تو آپ کی والدہ نے بنو حارثہ کی حویلی میں سے جہاں مسلمان خواتین جمع تھیں، انہیں دیکھا۔
ان کی زرہ چھوٹی تھی، جس میں سے ان کا ہاتھ باہر نکلا ہوا تھا۔ سیدنا سعدؓ جب میدان میں پہنچے تو ایک مشرک ابن العرقہ نے تیر مارا جو ان کے ننگے ہاتھ میں پیوست ہوگیا۔ اس سے ہاتھ کی رگ ہفت اندام کٹ گئی۔ سعدؓ کی شہادت بالآخر اسی زخم کی وجہ سے ہوئی۔ زخم لگنے کے بعد نبی اکرمؐ نے سعدؓ کے لیے مسجد نبوی کے صحن میں ایک خیمہ نصب کرا دیا تھا۔ نبیؐ خود صبح شام ان کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ ایک صحابیہ رفیدہؓ کو جو قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی اور علاج میں ماہر تھیں، سعدؓ کی دیکھ بھال اور علاج کے لیے مامور فرما دیا تھا۔
زخم سے خون بند نہیں ہو رہا تھا جس پر آپؐ نے خود سعدؓ کے زخم کو داغ دیا۔ داغے جانے کے بعد اگرچہ خون تو بند ہو گیا‘ مگر ہاتھ سوج گیا تھا‘ جس کی وجہ سے سعدؓ کو خاصی تکلیف محسوس ہوتی تھی۔ تکلیف کے ان دنوں میں بھی سعدؓ کا حوصلہ کبھی پست نہیں ہوا۔ اپنے زخم کی شدت کو دیکھ کر انہیں تقریباً یقین ہوگیا تھا کہ وہ اس زخم سے جانبر نہیں ہو سکیں گے۔ ایک روز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔ جس کے ایک ایک لفظ میں ان کی اسلام کے ساتھ وابستگی اور تعلق نمایاں طور پر جھلک رہا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’اے اللہ! اگر قریش سے مزید کچھ جنگیں ہونا باقی ہیں تو مجھے بھی مزید مہلت دے دے۔ میں ان لوگوں سے لڑنے کی تمنا رکھتا ہوں، جنہوں نے تیرے سچے رسول کو ایذائیں پہنچائیں، ان کو جھٹلایا اور پھر ان کے گھر سے انھیں نکال دیا۔ اگر ان لڑائیوں کا خاتمہ ہوگیا ہے تو پھر مجھے شہادت عطا فرما دے۔ ہاں میری یہ التجا ہے کہ بنو قریظہ کے معاملے میں میرا دل ٹھنڈا ہوجانے تک مجھے زندگی کی مہلت عطا فرما دے‘‘۔ بنو قریظہ نے جو بدعہدی کی تھی، اس کی سزا دینے کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حکم دیا کہ بنو قریظہ کا معاملہ طے کرنے سے پہلے اپنے ہتھیار نہ کھولیں۔ آپؐ نے اس حکم ربانی کے مطابق بنو قریظہ کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا۔
چند ہی دنوں کے اندر ان لوگوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیے کہ اس قضیے میں سیدنا سعد بن معاذؓ کو حَکم مقرر کیا جائے اور وہ جو فیصلہ کریں اسے تسلیم کرلیا جائے۔ زمانہ جاہلیت میں اوس اور قریظہ کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم تھے۔ آپؐ نے یہودیوں کی شرط قبول فرما لی اور سعدؓ کو بلا بھیجا۔ جب وہ تشریف لائے اور صورتحال سے واقف ہوئے تو انہوں نے فرمایا: ’’اللہ کے نبی کی موجودگی میں کوئی دوسرا فیصلہ کرے یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ انہوں نے بنوقریظہ کو بھی بلندآواز سے کہا کہ وہ اپنا فیصلہ اللہ کے نبی سے کرائیں، مگر بنوقریظہ کی بدقسمتی کہ وہ اپنی ضد پر قائم رہے اور بار بار یہی کہا کہ ہمارا فیصلہ سعد بن معاذؓ کرے۔ آپؐ نے بھی فرمایا: ’’سعد تم فیصلہ کرو‘‘۔ اس پر انہوں نے فرمایا: ’’میں ان کا فیصلہ تورات کے مطابق کرتا ہوں۔ ان کے لڑنے والے تمام مرد قتل کر دیے جائیں، عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا جائے اور ان کی تمام املاک مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردی جائیں‘‘۔ یہ فیصلہ نافذ ہوا اور غدار اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ سیدنا سعدؓ کی دعا قبول ہو چکی تھی۔ بنو قریظہ کے بارے میں ان کا سینہ ٹھنڈا ہوگیا اور قریش آئندہ کسی جنگ میں شریک ہونے کے دم خم سے محروم ہو چکے تھے۔
خود آپؐ نے فرمایا تھا کہ قریش اب کبھی مدینہ پر حملہ نہ کرسکیں گے، بلکہ اب مدینے کی طرف سے پیش قدمی ہوگی۔ جنگ خندق میں لگنے والے زخم کے نتیجے میں سیدنا سعدؓ شہید ہوگئے۔ ان کے پھولے ہوئے ہاتھ پر بکری کا کھر لگا، جس سے خون کا فوارہ پھوٹ نکلا۔ اسی سے ان کی شہادت واقع ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق آپؐ کو ان کی شہادت سے قبل اطلاع مل گئی جبکہ دوسری روایت کا مفہوم یہ ہے کہ آپؐ کو شہادت کے بعد جبرائیلؑ نے آ کر اس سانحے کی خبر پہنچائی۔ آپؐ نے سعدؓ کے بارے میں جو الفاظ کہے‘ وہ محدثین نے یوں روایت کیے ہیں: ’’اے اللہ! سعد نے تیری راہ میں بڑی تکلیفیں اٹھائی ہیں اس نے تیرے دین اور تیرے رسول کی خدمت کا حق ادا کیا ہے۔ اے اللہ تو اس کے ساتھ ایسا معاملہ کر جیسا تو اپنے مکرم دوستوں کے ساتھ کرتا ہے۔ سعدؓ کی وفات پر مدینہ میں غم کے بادل چھا گئے تھے۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ ایک روایت کے مطابق عرش عظیم کے حامل فرشتے بھی سعدؓ کی وفات پر کانپ گئے تھے۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ فرشتوں کی ایک بڑی جماعت نے بھی جنازے میں شرکت کی۔