انصاف میں تاخیر انصاف کی موت

367

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مشہور عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا اور قرار دیا ہے کہ ثابت ہو گیا کہ الطاف حسین نے اپنی پارٹی کے سینئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا حکم دیا تھا۔ قتل کا واحد مقصد بانی ایم کیو ایم کی ہدایت پر پارٹی میں سیاسی رکاوٹ دور کرنا تھا۔ عدالت نے خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی کو عمر قید کی سزا اور دس دس لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ الطاف حسین، محمد انور اور کاشف کامران کو مفرور قرار دے دیا گیا اور دائمی وارنٹ جاری کر دیے گئے۔ جائداد ضبط کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ لیکن اس میں نیا کیا ہے۔ ایم کیو ایم بنتے ہی سب کو پتا چل گیا تھا اور اس دور میں بھی بار بار ثابت ہوتا تھا کہ ہر قتل الطاف حسین کے حکم پر ہوتا ہے۔ یہ بات ثابت کرنے میں دس سال لگائے گئے۔ 2010ء میں قتل ہوا، 2015ء میں مقدمہ درج ہوا مقدمہ درج کرنے میں پانچ برس کیوں لگے۔ اس لیے کہ 2010ء تک بھی الطاف حسین بہت سی قوتوں کے پیارے تھے اور انہیں توقع تھی کہ وہ ان کے کام کے آدمی رہیں گے لیکن جب 2015ء میں مایوسی ہو گئی تو مقدمہ درج ہوا اور پانچ سال بعد وہ بات ثابت کر دی گئی جو دیوار پر لکھی ہوئی ہے۔ معاملہ تو یہ ہے کہ جب الطاف حسین اور ان کی پارٹی ایک تھی اور پاکستانی طاقت کے مراکز کی آنکھ کا تارا تھی اس وقت اس تنظیم نے کراچی کے تیس پینتیس ہزار لوگ مار ڈالے۔ شہر کے اہم لوگوں کا قتل ہوا الطاف حسین کے حکم پر ہی سارے قتل ہوئے۔ ججوں، وکیلوں، سیاسی رہنمائوں، اپنے کارکنوں بدر اقبال، شعیب شوبی، عبدالرزاق خان، خالد بن ولید، منظر امام اور پارٹی کے پہلے اور آخری چیئرمین عظیم احمد طارق، ڈاکٹر نشاط ملک ان تمام لوگوں کے قتل کا حکم کیا بھارت کے کسی سیاسی رہنما نے دیا تھا یا پنجاب کے کسی لیڈر نے۔ اس کے علاوہ اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی اس کا خاص نشانہ تھی۔ اسلم مجاہد، عبدالکریم ویانی، مرزا لقمان بیگ، ڈاکٹر پرویز محمود اطہر قریشی اور جمعیت کے درجنوں کارکن ایک ایک دن میں شہید کیے گئے۔ ان سب کا قاتل وہی تھا لیکن پاکستان کی حکومتیں، عدالتیں، پولیس، رینجرز، فوج سب کبوتر بن کر آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے۔ بار بار اس گروہ کو مسلط کیا جاتا رہا۔ اب مزید ظلم یہ ہوا کہ الطاف حسین کے چہیتے مصطفیٰ کمال کو دودھ سے دھو کر پاک صاف پارٹی بنا دی۔ وہ ملک میں گھومتے پھر رہے ہیں۔ ان کے اہم کارندے جو 12 مئی کو قتل عام والے دن مشیر داخلہ کے طور پر سڑکیں بند کرا رہے تھے انہیں انعام کے طور پر میئر بنا دیا۔ فاروق ستار کو ایم کیو ایم کا ایک دھڑا بنا کر دے دیا۔ درجنوں کارندوں کو ایم این اے، ایم پی اے اور آج بھی وزیر بنا رکھا ہے۔ یہ سب کون کرتا تھا۔ حکم تو سب کا الطاف حسین ہی دیتا تھا۔ اب اس کے سارے کارندوں کو ٹھکانے لگا کر باعزت باوقار مقامات پر بٹھا کر ایک اکیلے کو مجرم قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ تو اس وقت بھی مجرم تھا جب یہ سارا ٹولہ اس کے ساتھ تھا۔ جب اس شہر میں اس کے پالے ہوئے لوگوں نے بلدیہ ٹائون فیکٹری میں 260 لوگوں کو زندہ جلایا اس وقت کس کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کس کے پیاروں کا کارنامہ ہے۔ کیا الطاف حسین کے مشیر فاروق ستار ان کے مشیر، وزیر صرف عوام کی خدمت کرتے تھے۔ 1992ء سے یہ لوگ بھتے اور مال لندن پہنچاتے تھے۔ یہاں قتل اور ہڑتالیں الطاف حسین کے حکم پر ہوتی تھیں۔ سارا فساد اس پارٹی نے کیا سب بچ گئے۔ ایک آدمی پر ملبہ ڈالا جس کو پکڑنے میں دلچسپی ہی نہیں ہے۔ چند کروڑ کے فراڈ پر تو لوگوں کو انٹرپول کے ذریعے پکڑنے کی بات کرتے ہیں اور کھربوں لوٹ کر لندن لے جانے والے اور تیس ہزار سے زیادہ لوگوں کے قاتل کو لانے کے لیے چوں کی آواز بھی نہیں آتی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت اور حکومت نے دس سال تاخیر کرکے انصاف میں تاخیر انصاف کے قتل کے مترادف ہے والے محاورے کو سچ کر دکھایا۔ وفاقی وزیر فواد چودھری فرماتے ہیں کہ بڑا شیطان تو لندن میں بیٹھا ہوا ہے۔ لیکن اس کے چیلے اور چھوٹے شیطان تو فواد چودھری کی پارٹی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ الطاف حسین یہ تمام غارتگری خود تو نہیں کرتا تھا، دوسروں سے کام لیتا تھا جن میں سے کچھ آج بھی حکومت میں ہیں۔ قاتلوں کو سزائے موت نہ دینے کی یہ دلیل بھی عجیب ہے کہ چونکہ شواہد لندن سے ملیں ہیں جس نے شرط رکھی ہے کہ سزائے موت نہیں دی جائے گی اس لیے عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ پاکستان کی عدالت کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد لندن میں وہ وڈیو بھی سامنے آگئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ قاتلوں نے چھریاں کہاں سے خریدیں اور ایک قاتل عمران فاروق کا پیچھا کر رہا ہے۔ یہ ثبوت تو 2010ء ہی میں مل گئے تھے۔ پھر لندن پولیس نے خود ہی کارروائی کیوں نہیں کی؟ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ الطاف حسین نے برطانوی وزیراعظم کو جاسوسی کے لیے اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ جن مجرموں کو عمر قید کی سزا ہو گئی ہے کیا ان سے جرمانے کی رقم وصول کی جا سکے گی۔ عمران فاروق کے قتل کے وقت ہی یہ بات سامنے آگئی تھی کہ وہ ایک علیحدہ پارٹی بنانے جا رہے تھے جس پر الطاف حسین نے اپنی پارٹی کو انتباہ کیا تھا کہ عمران فاروق کراچی آئیں تو ان سے دور رہا جائے۔ تاہم عمران فاروق کی بیوہ شمائلہ طارق نے اس کی تردید کی ہے کہ وہ نئی پارٹی بنا رہے تھے۔ لیکن اس قتل کی وجہ اور کیا ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم میں جس نے بھی سر اٹھانے کی کوشش کی اسے مروا دیا گیا۔