اسرائیل کسی صورت تسلیم نہیں

472

قاضی جاوید
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے منگل 15جون کو قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتوں میں کوئی حقیقت نہیں۔ ہرگز ہم کسی عرب ملک کے زیر اثر اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اپنے بیان میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم دو ریاستی نظریے کے کل بھی حمایتی تھے اور آج بھی ہیں لہٰذا واضح طور پر کہتا ہوں پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے نہیں جارہا۔ انہوں نے کہا کہ ہرگز ہم کسی عرب ملک کے زیراثر اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے، حکومت کا فلسطین پر وہی موقف ہے جو مسلم لیگ ن اور پی پی پی کا موقف تھا۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل چاہتے ہیں اور ہمارا موقف ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہو۔ اس کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی میں چونکا دینے والی بات یہ کہی کہ پاکستان کامسئلہ فلسطین پر موقف یہ ہے کہ 1967ء سے قبل والے فلسطین کی سرحد کو برقرار رکھا کیا جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ حکومت اسرئیل کو دو ریاستی نظریے کی حمایت کر تا ہے ایک فلسطین اور دوسرا اسرائیل۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان 1967ء کی جنگ سے قبل والے اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے اور کیا اسرائیل کا 1967ء سے قبل پاکستان سے سفارتی تعلقات تھے یا پاکستان میں کوئی سفارت خانہ اسرائیل کا موجود تھا۔
اس سلسلے میں قائد اعظم نے اپنی وفات سے دو ہفتے قبل عید الفطر کے پیغام میں مسلم دنیا کو مبارک دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’فلسطین اور کشمیر میں پاور پالیٹکس کا ڈراما جاری ہے‘۔ انہوں نے یہ بھی نصیحت کی تھی کہ ’لندن اور جینوا سے داد رسی نہ مانگنا کیونکہ فرنگ کی شہہ رگ پنجہ یہود کے قبضے میں ہے۔ 7اکتوبر 1937ء کو علامہ اقبال نے قائد اعظم کو خط لکھا اور کہاکہ ’فلسطین کا سوال مسلمانوں کے ذہنوں کو پریشان کررہا ہے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ آپ ایک مضبوط قرارداد اس پر منظور کریں گے‘۔ 15 اکتوبر 1937ء کو لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا تھا ’تاج برطانیہ نے عربوں سے وعدہ خلافی ہے۔ عربوں کو جنگ عظیم میں استعمال کرنے کے بعد جھوٹے وعدے کرکے ان پر اعلامیہ مسلط کردیا گیا۔ ہم سے اب کہا جارہا ہے کہ حقائق کو دیکھیں؟ لیکن یہ صورتحال پیدا کس نے کی ہے؟ یہ سب برطانیہ کا کیا دھرا ہے۔ برطانیہ وعدہ خلافی کرکے اپنی قبر کھودے گا۔ برصغیر کے مسلمان عربوں کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔ اجلاس میں منظور کردہ قرارداد میں اعلان کیا گیا تھا کہ ’اگر برطانیہ اپنے اقدام سے باز نہ آیا تو مسلمان برطانیہ کو اسلام کا دشمن تصور کریں گے اور وہ اس کے خلاف اپنے ایمان کے تحت تمام اقدامات کریں گے۔
اسرائیل پر عالمی سطح پر کی جانے والی سازش کچھ اس طرح سامنے آتی ہے۔ 29نومبر، 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کیا۔ 14 مئی، 1948ء کو ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیل کے ملک کے قیام کا اعلان کیا۔ 15 مئی، 1948ء کو یعنی اعلان آزادی کے اگلے روز کئی ہمسایہ ممالک نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ بعد کے برسوں میں بھی متعدد بار اسرائیل کے ہمسایہ ممالک اس پر حملہ کر چکے ہیں۔ اسرائیل مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے جو بحیرہ روم کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ اس کے شمال میں لبنان، شمال مشرق میں شام، مشرق میں اردن، مشرق اور جنوب مشرق میں فلسطین اور جنوب میں مصر، خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر واقع ہیں۔ اسرائیل خود کو یہودی جمہوریہ کہلاتا ہے اور دنیا میں واحد یہود اکثریتی ملک ہے۔
جنرل مشرف نے خورشید قصوری کی صورت اسرائیلیوں سے راہ ورسم بڑھانے کا سلسلہ شروع کیا تھا لیکن بعد میں لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ پارلیمان کا کام پالیسی سازی نہیں بلکہ قانون سازی ہے۔ فیصلہ سازی کابینہ کی ذمے داری ہے۔ لیکن پارلیمان کی ماں یعنی عوام اس معاملے میں کسی طور پر آمادہ نہیں۔ کشمیر اور فلسطین پر پاکستانی قوم کا اجماع ہے۔ حکومت جب بھی اس میں تبدیلی کرے گی اپنی قبر کی جگہ بھی وصیت کردے۔ کابینہ بھی وہ فیصلہ نہیں کرسکتی جو پاکستان کے عوام کو قبول نہ ہو۔ ایک سوال اور بھی کیا جاتا ہے کہ عربوں نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور ہمیں کچھ زیادہ ہی تکلیف ہے؟ ایسے لوگوں کی اول تو تعداد ہی بہت کم ہے لیکن ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ کون سے عرب ملک میں جمہوریت ہے؟ کیا وہاں کے عوام اس کے حق میں ہیں؟ کیا پاکستان میں بادشاہت ہے؟ کیا یہاں کے عوام سے آپ نے پوچھ لیا ہے؟ اگر عرب دنیا میں جمہوریت ہوتی تو کیا جو کچھ ہورہا ہے، یہ وہاں ہوسکتا تھا؟ پاکستان نے کبھی اسرائیل کو تسلیم کیا اور نہ ہی فلسطین کی آزادی سے دستبردار ہوا ہے اور فلسطین کی آزادی کا مطلب اسرائیل کی ناجائز ریاست کا خاتمہ ہے۔ یہ سب کچھ دیوانے کا خواب سہی لیکن تاریخ میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔