ترجمان کیسے کیسے

393

اطہر ہاشمی
ایک تو ہمارے ہر دل عزیز حکمران جناب عمران خان کے ترجمان اتنے زیادہ ہیں کہ گننا مشکل ہے۔ حزب اختلاف کی طرف سے کوئی جملہ آتا ہے تو ترجمان غول در غول نکل پڑتے ہیں اور مصرع طرح پر دو غزلہ، سہ غزلہ اور بسا اوقات مثنوی زہر عشق سامنے آجاتی ہے۔ زہر عشق اس لیے کہ ایک ’’بت ترسا‘‘ کے عشق میں پیش کردہ مثنوی میں زہر ہی زہر ہوتا ہے۔ مرزا غالب کا یہ شعر یاد آجاتا ہے، ذرا سی ترمیم کے ساتھ۔
بنے ہیں شہ کے مصاحب پھرے ہیں اتراتے
وگرنہ شہر میں ایسوں کی آبرو کیا ہے
شاہ جی بھی اس وفاداری پر نہال ہوجاتے ہیں اور نظروں سے پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ ان کی آشیرواد نہ ہوتی تو ہر ایک بڑھ چڑھ کر مصاحبی کی داد دیتا نظر نہ آتا۔ ان ترجمانوں کے تو نام یاد رکھنا بھی مشکل ہے اور ترجمان ہی کیا، کابینہ کے سب ارکان کے نام اور کام بھی ’’مستحضر‘‘ نہیں ہوئے۔ (مطلب پتا نہیں کیا ہے، اچھا لگا ہے)
اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی کابینہ موجود ہے جس کی تعداد 51 ہے اور ابھی اس میں اضافے کی گنجائش ہے۔ وزیروں، نائب وزیروں، مشیروں اور غالباً نائب مشیروں کی ایک فوج ہے جو ہرگز بھی ’’ظفر موج‘‘ نہیں، بس موجیں آئی ہوئی ہیں۔ کفایت شعاری پر عمل کرتے ہوئے ان کی مراعات میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے۔ دو لاکھ کی تنخواہ میں خود وزیراعظم کا گزارہ نہیں ہوتا، بے چارے۔ مدینہ کی ریاست میں تو خلیفہ اول سیدنا ابوبکر نے اپنا مشاہرہ ایک عام مزدور کے برابر رکھوایا تھا۔ عربی میں مدینہ شہر کو کہتے ہیں۔ ہمارے ایک جذباتی ساتھی گٹر کے ڈھکن پر مدینہ ریاض لکھا دیکھ کر بہت برہم ہوئے تھے۔ اب مدینہ سے مراد اسلام آباد ہے لیکن اس کی حالت بھی کون سی اچھی ہے۔
ہم نے ایک ترجمان پر لکھنے کے لیے ابھی عنوان ہی باندھا تھا کہ وہ ایک بار پھر رخصت ہوگئیں۔ عنوان رہ گیا جو یہ تھا ’’منہ لگائی ڈومنی گائے تال بے تال‘‘۔ رخصتی بھی ایسی کہ کسی نے اس موقع کے لیے مخصوص گیت تک نہ گائے مثلاً ’’بنورانی بڑی دلگیر وے‘‘ یا ’’بابل پچھتائے ہاتھوں کو مل کے‘‘۔ لیکن ایک بابل ایسے ہیں جنہوں نے ہاتھ ملنے کے بجائے آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا غیظ و غضب بجا بھی تھا کہ بنورانی نے ان کے منصب پر ہاتھ صاف کیا تھا۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان سے پہلے فواد چودھری ترجمان تھے۔ چناں چہ انہوں نے خوب خوب دل کے پھپھولے پھوڑے۔ اب ان کا کام صرف چاند دیکھنا رہ گیا ہے، اپنی وزارت کے کام سے کوئی دلچسپی نہیں۔
فردوس عاشق بھی خوب تھیں۔ وہ اکیلی ہی ترجمانوں کی موجودہ فوج پر بھاری تھیں۔ وہ بڑی خوبی سے اور جم کر وزیراعظم کے ہر غلط کام کی تائید کرتی تھیں۔ پتا نہیں کیوں انہیں چلتا کردیا گیا۔ اب ان کی جگہ شبلی فراز آئے ہیں جن کی ایک ہی خوبی ہے کہ وہ معروف شاعر احمد فراز کے برخوردار ہیں۔ پتا نہیں وہ احمد فراز کے نظریات کے امین بھی ہیں یا نہیں۔ علامہ اقبالؒ کے صاحبزادے جاوید اقبال تو اپنے والد کے فلسفے اور نظریات سے متفق نہیں تھے۔
محترمہ فردوس عاشق اعوان اب غالباً سیالکوٹ تک محدود ہوگئی ہیں۔ سنا ہے کہ وہ کہتی ہیں ’’میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آبھی نہ سکوں‘‘۔ وہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی وفاقی وزیر تھیں، ممکن ہے اب کوئی نئی پارٹی تلاش کررہی ہوں، بشرطیکہ اس کا حکومت بنانے کا کوئی امکان ہو۔ سیالکوٹ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک شعر پڑھا تھا۔
میری زمیں مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا
سو، فی الوقت وہ چشمہ اقتدار کی تلاش میں ایڑیاں رگڑ رہی ہیں۔ کیا پتا 10,12 سال بعد وہ پھر کسی وزارت میں ہوں۔ ترجمانوں میں سے ایک شہباز گل بھی ہیں۔ یہ نہیں معلوم کہ گ پر زبر ہے یا پیش۔ ممکن ہے وہ گُل ہوں چناں چہ روز نیا گُل کھلاتے ہیں۔ اگر وہ زیر کے ساتھ گل ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی شہباز کی گِل یعنی مٹی ہیں۔ عجیب نام ہے صاحب۔ ایک مغل شہزادے کا شعر ہے آخر گل اپنی صرف درمیکدہ ہوئی۔
پہنچے وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر ہو
اور یہ آرزو پوری ہوگئی۔
ایک معاون خصوصی جناب شہزاد اکبر ہیں جنہیں لوگ احتساب اکبر کہنے لگے ہیں۔ ٹی وی چینل پر ایک آتش بیاں تجزیہ کارا نے انہیں مسخرا کہہ دیا۔ یہ بڑی زیادتی ہے۔ بات بھان متی تک جائے گی جس کے کنبے کا وہ ایک حصہ ہیں۔ وہ اپنا فرض منصبی بڑی تندہی سے ادا کررہے ہیں اور جو کام سونپا گیا ہے وہ اپنی بساط سے بڑھ کر ادا کررہے ہیں۔ ویسے تو ان کی خاص ذمے داری سابقہ حکومتوں کے خلاف جال بچھانا ہے، موجودہ حکومت کی خبر کوئی اور شہزاد لے گا لیکن گزشتہ جمعہ کو تو وہ سپریم جیوڈیشل کونسل کے فیصلے کی سرکاری توجیہ کرتے ہوئے پائے گئے۔ ساتھ میں نئے وزیر اطلاعات شبلی فراز کو بھی بٹھالیا۔ شبلی کے بارے میں حزب اختلاف نے بھی انہیں سراہتے ہوئے حکومت کا ’’نرم چہرہ‘‘ قرار دیا تھا۔ چہرے مہرے سے تو وہ واقعی نرم خو لگتے ہیں لیکن اب وہ کان نمک میں ہیں۔
ایک نہایت تیزی سے ابھرتے ہوئے منخی فنکار جناب مراد سعید ہیں۔ وہ بڑے ہو کر بھی سیاست میں رہے تو اچھے اچھوں کا منہ پھیر دیں گے۔ انہیں حزب اختلاف کے گھاگ سیاستدانوں کا جواب دینے پر لگادیا گیا ہے۔ گویا ممولے کو شہباز سے لڑایا جارہا ہے۔ وہ ایسے فنکار ہیں کہ اپنے وزن سے زیادہ بھاری آتشیں گولے منہ سے نکالتے ہیں۔ ان کی اور بلاول کی آواز میں بڑی یکسانیت ہے۔ بلاول نے تو اپنی والدہ کا انداز اپنایا ہے، باپ تو انہیں سیاسی نابالغ کہتا ہے لیکن مراد سعید پر کس کا اثر ہے؟ ان ڈھیروں ترجمانوں میں پنجاب کے ایک چوہان کا ذکر تو رہ ہی گیا۔ وہ پھر کبھی سہی۔