پاکستان کے وزیر خارجہ کس کے ترجمان ہیں اب یہ وضاحت ضروری نہیں رہی۔ وہ مسلسل بھارت نوازی اور عالمی طاقتوں کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک دن فرمایا کہ اگر بھارت سلامتی کونسل کا رکن بن گیا تو کون سی قیامت آجائے گی۔ پھر ایک اور تیر چھوڑا ہے کہ عرب ممالک کے دبائو میں آکر اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ہم کل بھی دو ریاستیمنصوبے کے حامی تھے اور آج بھی ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم نہیں کررہے۔ بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔ پھر اسمبلی میں شور مچنے پر انہوں نے وضاحت کی کہ میں نے بھارت کے سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کی بات نہیں کی۔ لیجیے یوٹرن لینا عمران خان کے زمانے میں کس قدر آسان ہوگیا ہے۔
وزیراعظم کو عوام کا غم ہے اس لیے انہیں اشیائے ضروریہ میں ملاوٹ کا قلق ہے۔ وہ اسے ماضی کا کام سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ماضی میں تدارک نہیں ہوا اب ہونا چاہیے۔ لیکن جناب اب تو دو سال کا ماضی آپ بھی رکھتے ہیں۔ خیر عمران خان کے لیے تو کتابیں درکار ہیں۔ یہ جو بھٹو کے سپاہی شاہ محمود قریشی ہیں انہوں نے جو بات کی ہے کہ عرب ممالک کے دبائو میں آکر اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ یہ ایسی بات ہے جو خورشید محمود قصوری اور جنرل پرویز کہا کرتے تھے۔ اب تو پاکستان میں کوئی کام بیرونی دبائو پر نہیں ہورہا۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک والے معاشی ٹیم کے سربراہ ہیں۔ لہٰذا آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن نہیں لی جاتی۔ بلکہ ٹیم خود موجود ہے۔ اب یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ حکمران بھارت نواز ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ الزام غلط ہے۔ بھارت نواز تو وہ ہوسکتا ہے جو پاکستان کا ہو اور اسے کسی معاملے میں بھارت کے مفاد کی بھی فکر ہوجائے لیکن یہاں تو کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں بھارت نوازی جاری نہ ہو۔ شاہ صاحب نے عرب ممالک کے دبائو میں نہ آنے کی بات کی ہے جو بالکل درست ہے۔ یہ لوگ تو مغربی ممالک کے دبائو میں آتے ہیں امریکا اسرائیل اور بھارت کے دبائو میں رہتے ہیں یہ عرب ممالک کے دبائو میں کیونکر آئیں گے۔ اس کے لیے پہلے ضرور پاکستان میں ایسے لوگ تلاش کیے جاتے تھے جو کسی کے دبائو میں آتے ہوں… اب تو بھارت اور اسرائیل کے ہمنوائوں ہی کو اقتدار میں داخل کردیا گیا ہے۔ ان کے نزدیک قادیانی کوئی مسئلہ نہیں، ان کے نزدیک اسرائیل تسلیم کرنا مسئلہ نہیں، بس عربوں کے دبائو میں نہیں آئیں گے۔ اب خود ہی تسلیم کرلیں گے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اس قسم کی باتیں ہوتی کیوں ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ یہاں قادیانیوں کے لیے نرم گوشے کی بات ہوتی ہے۔ بھارت کو خودہی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بنایا اور اب بیان دیتے ہیں کہ اگر بھارت بن گیا تو قیامت نہیں آئے گی۔ اب فرماتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کررہے۔ 1990ء سے قبل ایسی باتیں پاکستان میں ہوتی ہی نہیں تھیں۔ ایسی باتوں کا منظر عام پر آنا اور زیر بحث آنا خود ایک مسئلہ ہے اس سے شکوک کو زیادہ تقویت ملی ہے۔ پاکستانی قوم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی حکمرانوں کے دبائو میں رہتی ہے اسے امریکا یا عرب ممالک کا کوئی خوف نہیں، اسے تو ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ ہمارے حکمران نہ جانے کب قومی مفادات سے یوٹرن لے لیں گے۔ شاہ محمود صاحب قیامت کو کیا جانیں یہ تو کشمیریوں سے پوچھیں جن پر روز قیامت گزرتی ہے اور ہمارا وزیر خارجہ کہتا ہے کہ کوئی قیامت تو نہیں آجائے گی۔ وزیر خارجہ کا رویہ اور بیانات ہی قیامت سے کم نہیں۔ حکومت کو 5 اگست 2019ء کو بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے اقدامات کے ساتھ ہی جوابی کارروائی کرنا چاہیے تھی لیکن ہمارے وزیراعظم نے دو جمعے آدھا گھنٹہ سڑکوں پر کھڑے ہونے کو ترجیح دی۔ پاک فوج نے ترانے اور ڈرامے بنانا شروع کردیے اور دو تین جمعے کے بعد یہ آدھا گھنٹہ بھی گیا۔ اب ہمیں سی پیک کی شکل میں چین مل گیا ہے اور وزیر خارجہ سمیت تمام حکومتی وزرا آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اب چین بھارت سے کشمیر لے کر ہمیں دے گا۔ کیوں کہ ہم میں تو ہمت نہیں ہے۔ پاک فوج نے عزم ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی بھارتی حمایت کو بے نقاب کرتے رہیں گے۔ اچھا… تو بے نقاب کرنے کے بعد کیا ہوگا۔ بھارت تو کشمیر میں فوج اتارنے پر ہی بے نقاب ہوگیا تھا۔ 5 اگست کو مزید بے نقاب ہوگیا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران اب بے نقاب ہوگئے ہیں ان میں بھارت کے سامنے بات کرنے کی جرأت نہیں رہی ہے۔ یہ پاکستانی اخبارات میں اور اردو خبروں میں بھارت پر گرجتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی اداروں میں دوستی کی باتیں کرتے ہیں۔ عجیب منطق پیش کی گئی ہے کہ اگر ابھی بھارت کو سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بننے سے روکتے تو 2026ء میں پاکستان کی رکنیت خطرے میں پڑجاتی۔ اس پر واہ واہ کی تان اٹھائی جائے یا سر پیٹا جائے۔ یہ کیسے لوگ سر پر مسلط ہیں ہمارے۔ ارے چھ سال میں بھارت سلامتی کونسل میں بیٹھ کر جتنی شرانگیزی کرے گا اس کے بعد پاکستان 26 برس میں بھی اس کا مداوا نہیں کرسکے گا۔ اس پر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کرنا چاہے کچھ تو کرے گا۔ لیکن اگر ایسے حکمران رہے تو وہ 2026ء میں بھی یہی کررہے ہوں گے۔ اگر پاکستان نہ بن سکا تو کون سی قیامت آجائے گی۔ قیامت تو ان لوگوں کے لیے صرف یہی ہوتی ہے کہ ان کی حکومت چلی جائے۔ بس یہ حکومت میں آجائیں تو عوام پر قیامت یہ حکومت سے چلے جائیں تو ان پر قیامت۔ کشمیر سے ان کو کیا غرض۔
حکمرانوں کی ساری جدوجہد اپوزیشن کو پابند سلاسل کرنے یا اگلے الیکشن میں حصہ لینے کے قابل نہ چھوڑنے تک محدود ہے۔ اور اگر بات سلیکٹرز کی ہو تو وہ بھی اب اس قسم کے کاموں میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ملک میں سی پیک آگیا ہے۔ بس اسے سنبھالنے اور اسی پر اکتفا کرنے میں سب مصروف ہین۔ اب کشمیر وغیرہ پر جنگ ان کو اچھی نہیں لگے گی۔ سب کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تو ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے ترانہ آیا۔ پھر جب مودی نے پانچ اگست کا اقدام کیا تو ’’مودی کشمیر سے نکل جا‘‘… والا ترانہ آگیا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ترانوں سے اگر علاقے فتح ہوتے تو بہادر شاہ ظفر بھی ترانے لکھ لکھ کر انگریزوں کو ملک سے نکال دیتے کالے پانی نہ بھیجے جاتے۔ مگر اب تو حکمرانوں کے بجائے عوام ہی کو کالے پانی کی سزا ہوتی ہے۔