اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب کی درآمد

332

معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے فرمایا ہے کہ مسترد شدہ ٹولہ روز نیا شوشا چھوڑ دیتا ہے۔ انہوں نے یہ بات مولانا فضل الرحمن کے لاپتا افراد کے حوالے سے کسی بیان پر کہی ہے لیکن ان کی اس خبر کے عین اوپر یہ خبر بھی لگی ہوئی ہے کہ پنجاب حکومت نے غیر ملکی شراب لانے والوں پر ڈیوٹی کم کردی ہے۔ ہر معاملے میں عوام پر ٹیکس مسلط کرنے والی حکومت کو اچانک ٹیکس کی چھوٹ دینے کی سوجھی اور 30 کروڑ روپے کی رعایت کردی۔ مسئلہ 30 کروڑ کا نہیں ہے ٹیکسوں کی چھوٹ عوام کی ضروریات کے لیے دی جاتی۔ دوائوں اور خوراک کے لیے دی جاتی تو بات سمجھ میں آتی لیکن ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت اور پارٹی کی جانب سے غیر ملکی شراب پر ڈیوٹی میں رعایت دینا کسی طور بھی مناسب نہیں۔ شہباز گل صاحب بھی سوچیں کہ ان کی پارٹی کے پنجاب کے حکمران کس طرف جارہے ہیں۔ یہ شوشا کون سے مسترد ٹولے کا چھوڑا ہوا ہے۔ اس وقت تو سارے شوشے منتخب یا سلیکٹڈ ٹولہ ہی چھوڑ رہا ہے۔ یہ شوشا قادیانیوں کا ہو یا سودی نظام کی حمایت کا یا بھارت نوازی کا اور اب شراب کے بیوپاریوں کو فائدہ پہنچانے کا۔ یہ سارے شوشے پی ٹی آئی والے ہی چھوڑ رہے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پوری پی ٹی آئی میں کوئی ایسا فرد نہیں جو اس رویے کی اصلاح کروائے۔ 30 کروڑ روپے کی بھی کیا حیثیت اصل بات تو یہ ہے کہ شراب درآمد کیوں ہورہی تھی، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب کا کیا کام۔ اگر پیسہ ہی کمانا شرط ہے تو پیسہ کمانے کے اور بھی ڈھنگ ہیں، یہ لوگ اپنا پورا گھرانہ پیسہ کمانے میں لگادیں، ملک کو تو استعمال نہ کریں۔ پاکستان میں تو ہر مذہب کے لوگوں نے خود آگے بڑھ کر کہا ہے کہ ہمارے مذہب میں بھی شراب جائز نہیں۔ تو شراب کی درآمد کے کیا معنی۔