ڈاکٹر فیاض عالم
گل محمد الخدمت فریدہ یعقوب اسپتال میں ملازمت کرتا ہے۔ اسپتال کے ایم ایس اور مجھ جیسے درجنوں سماجی کارکنوں کے مربی و رہنما ڈاکٹر ظفر اقبال نے اس سے تعارف کروایا۔ نوجوان نے بتایا کہ اس کا تعلق سندھ کے ایک ہندو خاندان سے ہے۔ اس کے لڑکپن میں خاندان کے دگرگوں معاشی حالات کی وجہ سے والدین نے کراچی میں ’’سائیں‘‘ کے گھر چھوڑ دیا تاکہ لباس اور خوراک کا مسئلہ بھی حل ہو جائے، تھوڑی بہت تعلیم بھی حاصل کر لے اور گھر کے چھوٹے موٹے کام کے نتیجے میں کچھ رقم بھی مل جایا کرے۔
سائیں نے اس لڑکے سے اپنی سگی اولاد جیسا برتاؤ کرنا شروع کردیا۔ ان کا اپنا ایک ہی بیٹا تھا جو عمر میں اس لڑکے سے کافی چھوٹا تھا۔ قاری صاحب جب ان کے بیٹے کو قرآن پڑھانے آتے تو سائیں اس لڑکے کو بھی ساتھ بٹھا دیتے وقت گزرتا گیا۔ لڑکے کی عمر اٹھارہ سال ہوگئی۔ سائیں نے ایک دن اس سے کہا کہ میری خواہش ہے کہ تم اسلام قبول کرلو۔ اب تم بالغ ہو چکے ہو اور فیصلہ کرسکتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانا ضروری ہے یا بتوں کو پوجنا! لڑکا سائیں کو بھگوان کا اوتار سمجھتا تھا۔ ان کی شخصیت محبت و شفقت اور پرخلوص انداز تربیت کی وجہ سے ان سے بے حد متاثر تھا۔ قرآن بھی اچھا خاصہ پڑھ چکا تھا۔ اللہ نے اسے ہدایت دی اور وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ والدین اسے لینے کے لیے آئے تو اس نے ان کے ساتھ جانے سے معذرت کر لی اور کہا کہ اب سائیں کی فیملی ہی میری فیملی ہے۔ سائیں نے کچھ سال کے بعد ایک مسلمان گھرانے میں اس کی شادی کروادی اور جب الخدمت فریدہ یعقوب اسپتال بنا تو اس میں اسے ملازمت دلوادی۔
سائیں ڈاکٹرعبدالقادر سومرو اسلامی جمعیت طلبہ سندھ کے سابق ناظم، پیما کے سابق صوبائی صدر، الخدمت فاؤنڈیشن کے صوبائی نائب صدر، جماعت اسلامی کے رکن اور ملک کے معروف سماجی رہنما تھے۔ ان کے مریضوں کی تعداد ہزاروں میں تھی جو پورے سندھ میں پھیلے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب گدی نشین نہیں تھے لیکن ان کے مریض ان کے مریدوں کی طرح تھے اور ان سے غیر معمولی عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ وہ علاقے میں ڈاکٹر عبدالقادر سومرو نہیں بلکہ سائیں عبدالقادر کہلاتے تھے۔ کورونا کی وبا پاکستان میں بھی وارد ہوئی اور کچھ مریض سامنے آئے۔ دنیا بھر کے ڈاکٹروں کے لیے یہ ایک نیا مرض تھا اور اب بھی ہے۔ اس کے بارے میں نئی نئی معلومات مل رہی ہیں۔ تحقیقات ہو رہی ہیں۔ حفاظتی ویکسین اور دوائوں پر کام جاری ہے۔ دنیا کی معیشت نے اس طرح کی بدحالی کا سامنا اس سے پہلے بہت کم کیا تھا۔ دنیا کے اکثر ممالک کے حکمران اور عوام شدید پریشانی کا شکار ہیں اور سچ یہ ہے کہ سائنس کی ترقی کے نام نہاد دعوں کی قلعی پوری طرح کھل چکی ہے اور قدرت نے مٹی سے بنے ابن آدم کو اس کی اوقات اچھی طرح یاد دلادی ہے۔
اے کاش! حضرتِ انسان عقل کے ناخن لے سکے اور زمین پر فساد پھیلانا اور اکڑ کر چلنا بند کردے۔ ڈاکٹر عبدالقادر سومرو شام کے اوقات میں گلشن حدید کے علاقے میں جنرل پریکٹس کرتے تھے اور الخدمت اسپتال میں جلدی امراض کے مریضوں کو دیکھا کرتے تھے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ انہیں کورونا وائرس کہاں اور کیسے لگا لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ کسی مریض سے انہیں منتقل ہوا۔ وہ ذیابیطس اور دمہ کے مرض میں مبتلا تھے اور پیما کے سابق مرکزی صدرو ملک کے معروف فزیشن ڈاکٹر سہیل اختر کے رابطے میں رہتے تھے۔ سومرو صاحب کو بخار اور کھانسی کے ساتھ سینے میں گھٹن کی شکایت پیدا ہوئی تو انہوں نے ڈاکٹر سہیل سے مشورہ کیا۔
انہوں نے انڈس اسپتال بلالیا اور ایکسرے کروایا۔ انڈس اسپتال میں ریڈیالوجی کے شعبے کے چیئرمین ڈاکٹر کاشف شازلی ہیں جو اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن رہ چکے ہیں اور اب جماعت اسلامی کے رکن ہیں اور پیما کی مرکزی شوریٰ کے بھی رکن ہیں۔ ڈاکٹر کاشف نے بتایا کہ ایکسرے اچھا نہیں ہے اور کورونا سے پیدا ہونے والے نمونیا کے اثرات موجود ہیں۔ ڈاکٹر سہیل نے علامات اور ایکسرے دیکھنے کے بعد انہیں اسپتال میں داخل کروا دیا۔ کورونا کا ٹیسٹ کروایا گیا جو منفی آیا۔ بدقسمتی سے علامات واضح طور پر کورونا ظاہر کر رہی تھیں۔ ایکسرے کی فلم بھی پھیپھڑوں کے متاثر ہونے کی نشاندہی کر رہی تھی اور مریض کو سانس لینے میں بہت مشکل ہو رہی تھی لہٰذا ڈاکٹر سہیل اور دیگر ماہرین نے انہیں اسپتال کے آئی سی یو میں داخل رکھا اور یہ رائے قائم کی کہ انہیں کورونا کا مرض لاحق ہو چکا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں میں بہت ساری غلط فہمیاں جنم لے چکی ہیں اور باقی کا کام سوشل میڈیا نے کر دیا ہے۔ رپورٹ منفی آتی ہے اور کچھ دن بعد اسے مثبت کر دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر کورونا بنا رہے ہیں اور ہر مردے کے عیوض پاکستان کو نجانے کون سا پراسرار ادارہ ڈالر دے رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ حقیقت صرف اتنی ہے کہ کورونا کا ٹیسٹ یعنی پی سی آر 30 سے 40 فی صد تک غلط منفی رپورٹ دے سکتا ہے۔ سیمپل یعنی نمونہ لینے میں غلطی، نمونے میں وائرس کی مقدار کی کمی میں، سیمپل کو تیار کرنے میں کوئی غلطی، سیمپل کو مشین میں استعمال کرنے والے فرد کی تربیت اور مہارت کی کمی اور کیمیکل کا معیار وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پی سی آر ٹیسٹ غلط منفی آسکتا ہے۔ ڈاکٹر محض ٹیسٹ کی بنیاد پر مرض کی تشخیص و علاج نہیں کرتے بلکہ علامات سمیت کئی عوامل کو اہمیت دیتے ہیں۔ عبدالقادر سومرو اسپتال کے آئی سی یو میں داخل رہے۔ ان کے قریبی دوست ڈاکٹر پروفیسر اختر ان کے علاج کی کوشش کرتے رہے۔ کچھ دن بعد دوبارہ ان کا ٹیسٹ کروایا گیا جس کا نتیجہ مثبت آیا اور یہ بات مزید یقینی ہوگئی کہ ڈاکٹر عبدالقادر کوکورونا لاحق ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقادر سومرو پہلے سے کچھ امراض میں مبتلا تھے اس لیے ان کے جسم کی قوت مدافعت بھی کم تھی۔ کیونکہ کورونا وائرس کا کوئی حتمی علاج اب تک دریافت نہیں ہوسکا ہے اور ڈاکٹر مرض سے پیدا ہونے والی علامات کا علاج کرتے ہیں یا پھر اضافی انفیکشنز کا اس لیے زیادہ سیریس مریضوں کا بچنا مشکل ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقادر سومرو کو وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا لیکن ان کی طبیعت سنبھل نہ سکی چند دن بعد سائیں عبدالقادر سومرو اپنے اہل خانہ، گل محمد، دوستوں اور ہزاروں مریضوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر آخری سفر پر روانہ ہوگئے۔ خدمت خلق، دعوت دین اور اقامت دین کو اپنی زندگی کا مشن اور نصب العین بنانے والا سائیں اللہ سائیں کے دربار میں حاضر ہوگیا۔
امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا تھا کہ: ’’ہمارے بعد ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ حق پر کون تھا‘‘۔
ڈاکٹر عبدالقادر سومرو اور درجنوں ڈاکٹروں کے جنازے اٹھ چکے، وہاٹس اپ اور فیس بک اب بھی منفی باتیں بغیر کسی تصدیق کے پھیلائی جارہی ہیں، لوگوں کو مسیحاؤں سے متنفر کیا جارہا ہے، اسپتال جانے سے ڈرایا جارہا ہے۔ فیض صاحب یاد آتے ہیں۔
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن
جو تیرے عارضِ بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو تیرے صحراؤں کو گلزار کریں
بلا کشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا
جو مجھ پہ گزری مت اْس سے کہو، ہوا سو ہوا
مبادا ہو کوئی ظالم تیرا گریباں گیر
لہو کے داغ تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا
ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
تیری محفل کو خدا رکھّے ابد تک قائم
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے ہمارا کیا ہے